199

آئینی ترامیم پر ہر لمحہ بدلتی صورتحال!آخر ہو کیا رہا ہے؟

راجہ دانیال علی دانی پنڈی پوسٹ نیوز اسلام آباد

ان دنوں آئینی ترامیم کی باز گشت زور وشور سے جاری ہے اور اسی تناظر میں ہر گھنٹے میں منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے، ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آئینی ترامیم کے مسودے پر اتفاق رائے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ کچھ روز کے دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مولانا کے گھر میں یکے بعد دیگرے ملاقاتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے ساتھ ساتھ مختلف مسودے بھی سامنے آرہے ہیں۔

فضل الرحمان کی کراچی آمد
کچھ دن قبل فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی جس کے بعد تقریباً رات کے 12 بجے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ہم دونوں ایک مسودے پر متفق ہیں۔

فضل الرحمان کی لاہور میں نواز شریف سے ملاقات

ٹھیک اس سے دوسرے دن فضل الرحمان لاہور جاتی امراء پہنچے جہاں ان کی ملاقات میاں محمد نواز شریف سے ہوئی، جہاں پر صدر پاکستان آصف علی زرداری، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلی پنجاب مریم نواز، وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، اسحاق ڈار ، مریم اورنگزیب سمیت دیگر تمام حکومتی سینئر لیڈرشپ وہاں موجود تھی جس کے بعد ایک اور پریس کانفرنس کی گئی وہ بھی رات گئے دیر سے ہوئی جس میں ایک بات کہی گئی کہ ہم تینوں کا بھی ایک مسودے پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔
مگر اس کے فوراً بعد فضل الرحمان واپس لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور ان کی ملاقات پی ٹی آئی کی لیڈرشپ سے ہوئی جس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا نے کچھ سخت الفاظ کا استعمال بھی کیا کیونکہ نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہیں یہ خبر ملنا شروع ہو گئی تھی کہ ان کے چند ارکان کو زبردستی ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے تناظر میں انہوں نے یہ بات کی کہ اگر اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیئے گئے تو مذکرات کا دروازہ بھی بند کر دیں گے اور زبردستی ووٹ نہیں دیں گے۔

پی ٹی آئی کا 18 اکتوبر کو ملک گیر احتجاج کیسا رہا
پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ 18 اکتوبر بروز جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت آئینی ترامیم پاس کروانے کی کوشش کرے گی اس لیے انہوں نے ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی تھی، حکومت نے اس وجہ سے جمعے کو تعلیمی اداروں میں عام تعطیل کا اعلان بھی کر رکھا تھا، مگر احتجاج کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں دیکھنے کو ملے، کیونکہ سینئر لیڈرشپ مولانا سے ملاقاتوں بھی مشغول نظر آئی، حماد اظہر جو کہ 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال واپس لیئے جانے پر کافی غصے میں تھے وہ بھی کہیں نظر نہیں آئے۔

مخصوص نشستوں کا معاملہ اور سپریم کورٹ کی وضاحت

قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے مخصوص نشستوں پر تمام معطل ہونے والے ارکان کو اسلام آباد بلا لیا کیونکہ وہ پر امید تھے کہ آج الیکشن کمیشن اس حوالے سے فیصلہ سنا دے گا جو کہ ان کے حق میں آئے گا مگر جمعے کو ہی شام کے وقت مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کے اکثریتی 8 ججز نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ فریقین کی طرف سے اٹھائے گئے تمام قانونی اور آئینی معاملات کو جامع طور پر نمٹا دیا گیا ہے، لہٰذا مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کا اثر ہمارے فیصلے کو ماضی میں لاگو کرنے کی اجازت نہیں دیتا، رجوع کا حق اس لیے دیا تھا کہ مختصر حکم نامے پر عمل درآمد میں کوئی پریشانی نہ ہو، اب تفصیلی فیصلہ جاری ہو چکا ہے، لہٰذا اب کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی، تفصیلی فیصلے میں تمام تر قانونی و آئینی نکات کا احاطہ کردیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے کا آئین کے آرٹیکل 189 کے تحت لازم نفاذ ہے اور اسے نافذ کیا جانا چاہیے تھا۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن کا طویل اجلاس ہوا جس میں اس بات پر تفصیلی بحث ہوئی کہ الیکشن ایکٹ پر عمل کیا جائے یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر، مگر بالآخر یہ اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔
دوسری جانب یہ خبر آئی کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں تمام جماعتوں کا ایک مسودے پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے اور انہوں نے مسودے کی منظوری دے دی ہے، جس کے فوراً بعد وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ آج رات ہی کوئی کاروائی ڈال دی جائے گی مگر بعد ازاں وہ اجلاس 19 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا۔

سانحہ کارساز کے موقع پر پیپلز پارٹی کا حیدرآباد جلسہ

جمعے کو ہی شام کے وقت بلاول بھٹو ملاقات کے لیے فضل الرحمان کے گھر پہنچے مگر وہاں پی ٹی آئی کا وفد پہلے سے ہی موجود تھا جس کے باعث وہ وہاں سے فلائٹ لے کر سیدھے حیدرآباد سندھ پہنچ گئے جہاں سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا وہاں جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھاکہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دیا، انہوں نے کہا کہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ نہیں ہوسکتا، وہی جسٹس فائز عیسیٰ جس نے فیض آباد ھرنے کا ایسا بہادر فیصلہ دیا جو پاکستان کے کسی اور جج میں ہمت نہیں کہ وہ کرکے دکھائے۔
انہوں نے کہا کہ “وہ جسٹس فائز عیسیٰ جس نے کہا مشرف آمر ہے وہ کام کر کے دکھایا جو کوئی اور منصف نہیں کرسکتا تھا، جو کوئی اور چیف جسٹس نہیں کرسکتا تھا، وہ بھی کام کرکے دکھایا جو لوگ ڈرتے تھے یہ فیصلہ سنانے سے”۔
بلاول کا کہنا تھاکہ “اس سے پہلے تمام چیف جسٹسز ڈرتے تھے، بزدل تھے، وہ یہ بھی نہیں کرسکتے تھے کہ جو آمر تھا اس کو آمر بھی نہیں قرار دے سکتے تھے، جسٹس فائز عیسیٰ کو قوم سلام پیش کرتے ہیں جو آپ نے یہ کام کیا ہے تاریخ ان کو یاد رکھے گی”
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ اسلام آباد سے واپس آؤں گا تو آئینی ترامیم واپس کروا کر آؤں گا، پہلے کوشش ہے کہ آئینی ترامیم کو اتفاق رائے سے منظور کیا جائے لیکن اگر اپوزیشن نے ہمارا راستہ روکا تو مجبوراً وہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو متنازع اور پسندیدہ نہیں، مسلم لیگ ن کے ساتھ ملکر اکثریت پر قانون سازی کروں گا۔ بلاول نے کہا کہ میں ابھی واپس اسلام آباد پہنچ کر فصل الرحمن سے ملاقات کروں گا اور انہیں اعتماد میں لوں گا جس کے بعد وہ سیدھے اسلام آباد واپس پہنچے۔
جب بلاول بھٹو حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کر کے واپس پہنچ رہے تھے پیچھے پی ٹی آئی لیڈرشپ اور فضل الرحمان کی رات گئے پریس کانفرنس ہوئی جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ ہمارا بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

بلاول اور فضل الرحمان کی رات گئے دوسری ملاقات

اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے رات دیر گئے مولانا فضل الرحمان سے بات کی تھی تاہم بلاول اور مولانا کی ملاقات میں آئینی ترامیم کے معاملے پر وسیع اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

آئینی ترامیم پر مختلف رہنماؤں کی رائے

اب مزید آگے کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے مگر آئینی ترامیم پر مختلف رہنماؤں کی رائے بھی آرہی ہیں جس میں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا اگر آئینی عدالت اور عدالتی اصلاحات اتنی ہی ضروری ہیں تو 25 اکتوبر کے بعد لائیں، حکومتی جلد بازی سے تو لگ رہا ہے جیسے عدالت پر قبضہ کرنا ہے۔
دوسری جانب سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کیلئے نمبر بھی پورے اور نمبری بھی پورے ہیں، کیبنٹ میں آج یہ معاملہ مکمل ہورہا ہے۔ پی ٹی آئی کے بکاؤ مال پی ٹی آئی کو بیچ چکے ہیں، 26 ویں ترمیم ٹھوک بجا کر ہونے جارہی ہے اور خوشخبریاں 26 ویں ترمیم کے بعد بھی آئیں گی۔

اب آگے کیا ہونے جا رہا؟

خیر آج 19 اکتوبر ہے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے، صرف ایک ہفتے کا وقت باقی ہے حکومت مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے دوسری جانب مولانا بھی ڈٹے ہوئے ہیں، “وقت کم اور مقابلہ سخت ہے”

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں