چوہدری محمد اشفاق‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جب بھی کلرسیداں کا دورہ کرتے ہیں تو اس موقع پر وہ علاقہ کے لیے بے شمار ترقیاتی کاموں کے اعلان کرتے ہیں جبکہ دوسری بار عوام علاقہ پہلے سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو پوری نہ ہونے پر وہ مایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اس دفعہ بھی ایساہی ہوا ممبران ایم سی کلرسیداں پورا دن ترقیاتی کا موں کے حوالے سے درخواستیں تیار کرتے رہے اور مختلف قسم کی فائلیں بنواتے رہیں لیکن تمام سوچیں اس وقت دم توڑ گئیں جب چوہدری نثار علی خان کی طرف سے باقاعدہ ناراضگی کا اظہار سامنے آیا ان کا یہ دورہ گزشتہ دوروں سے بہت مختلف ثابت ہوا بہرحال چوہدری نثار نے اپنا خطاب شروع کیا اور کہا کہ وہ آج نہایت ہی اہم کام مکمل کر کے آئے ہیں راولپنڈی میں ایک جو آٹھ سو کنال پر محیط تھی اور وہ قبضہ گروپ کے زیر سایہ تھی آج ہم نے واگزار کروا لی ہے جس میں بیس کنال رقبہ پر قبرستان بنایا جائے گا اور میت لے جانے کے لیے تین عدد بسیں بھی مہیا کی جائیں گی اس کے علاوہ بہت جلد روات کے مقام پر ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھی بناؤں گا میں نے چار سالوں میں این اے باون میں پندرہ ارب سے زائد ترقیاتی کام کروائے ہیں پیپلز پارٹی کے دور میں صرف اس علاقہ میں چوہدری خالد مرحوم نے کام کروائے ہیں جب بلدیاتی الیکشن کا وقت تھا تو ہر طرف میرے اپنے ہی ایک دوسرے کے سامنے آگئے لیکن میں سب کا شکر گزا رہوں کہ الیکشن کے بعد جیتنے اور ہارنے والے سب ہی میرے ساتھ ہیں کلرسیداں سے اپوزیشن کا تقریبا صفایا ہو گیا ہےایم سی کے الیکشن کے وقت آیا تو دو گروپ بن گئے جس پر سیاست شروع ہو گئی اور یہ سیاست انتہا تک پہنچ گئی دونوں گروپوں کی رسہ کشی سے مجھے بہت تکلیف پہنچی جس پر میں سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اس مسئلے کو ختم کرانے کے لیے میں نے تمام ممبران ایم سی کو پنجاب ہاؤس اسلام آبا دبلایا وہاں میں حتمی فیصلے کے لیے تمام ممبران کو ایک چٹ دی کہ آپ خفیہ طور پر مجھے نام لکھ دیں کہ ایم سی چیئرمین کون ہونا چاہیےپھر وائس چیئرمین کی نامزدگی کے لیے دوسری چٹ بھیجی مجھ سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ دونوں چٹیں میں نے پڑھنے کے بعد پھاڑ ڈالیں ایک طرف چیئرمین اور دوسری طرف وائس چیئرمین کی اکثریت تھی جس پر میں نے اپنا فیصلہ کر ڈالا میرے اس فیصلہ پر میرے سامنے کسی بھی ممبر چر وں تک نہ کی اور پھر بعد میں دوبارہ وہی صورتحال پیدا ہو گئی جس پر مجھے بڑی تکلیف ہو ئی ہے تمام ممبران جھگڑوں میں پڑ گئے اب ایم سی ممبران مجھ سے کسی بھی قسم کی توقعات نہ رکھیں اور نہ ہی میں ان کو کوئی فنڈز جاری کروں گا اور نہ ہی ان کے ذریعے ترقیاتی کام ہوں گے ایک گروپ کہتا تھا کہ شیخ عبدالقدوس کو کسی صورت چیئرمین نہیں ہونا چاہیے لیکن میں کہتا ہو ں کہ شیخ عبدالقدوس کو کیوں نہیں ہونا چاہیے جو شخص 2002سے میرے ساتھ کھڑا ہے میں اس کو کیسے فراموش کردو ں ایم سی کے یہی ایم سی کے چیئرمین ہوں گے اس کے علاوہ وائس چیئرمین کے حوالے سے بھی بڑی زیادتی ہوئی ہے اور اس حوالے سے ایک بر اطوفان برپا ہو گیا ایم سی ممبران کی کم از کم اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے تھی کہ وہ میرے سامنے کہتے کہ ہمیں وائس چیئرمین منظور نہیں ہے لیکن کسی نے ہمت نہیں کی مجھے کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ حاجی اخلاق وائس چیئرمین کے عہدے سے میرے نام پر دستبردا رہو گئے ہیں جس پر مجھے اور زیادہ تکلیف ہوئی ہے میں منافق نہیں ہوں حلقہ کے عوام کے سامنے کھلی باتیں کرتاہوں میرے نزدیک سب سے بڑی نعمت ہیں میں امیر ترین شخص ہوں جس کے پاس اتنے اچھے دوست موجود ہیں میں بلدیہ ممبران کے ذریعے کام نہیں کرواؤں گا تمام ممبران بلدیہ اپنا تجزیہ کرلیں کلرسیداں کے لوگوں کو دیکھ کر خوشگوار دستی کا احساس ہوتا ہے آپ لوگوں نے ساتھ دیا تو 2018,23اور 28میں بھی الیکشن لڑوں گا میں دیکھوں گا ارکان بلدیہ کے پاس فنڈز کہاں سے آتے ہیں کئی وزیر اعظم گزر چکے جن کو کوئی سلام نہیں دیتا مجھے ساتویں مرتبہ اقتدار ملا میرے والد صاحب کہتے تھے نثار ہمارے دور میں برے لوگ انگلیوں پر گنے جاتے تھے اور اب تمہارے دور میں اچھے لوگ انگلیوں پر گنے جاتے ہیں اگلے سوا سال میں ترقیاتی کاموں کا ایک بڑ جھٹکا آئے گا اور کوئی گاؤں ایسا نہیں رہے گا جہاں پر میری خدمات کے نشان نہیں ہوں گے اگر سواری کے لیے اچھے گھوڑے موجود ہوں تو گدھوں کی ضرورت نہیں رہتی میری صورت میں آپ کے پاس ایک اچھا گھوڑ ا موجود ہے آج کا دور میڈیا کا دور ہے ملک میں ہر روز پانچ یا چھ دھماکے ہوتے تھے بجلی نہیں ملتی تھی کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہ دی آج ہماری حکومت ان تمام مسائل پر قابو پاچکی ہے جو لوگ ایک صوبے کو ٹھیک نہ کر سکے وہ نیا پاکستان بنانے کا دعوی کر رہے ہیں جس نے ایک دفعہ بے وفائی کی ہو وہ بار بار کرے گا میں توقع کرتا ہوں کہ یہ علاقہ مسلم لیگی ہے اور مسلم لیگی ہی رہے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے کو باتیں کیں وقت کے لحاظ سے وہ ساری ٹھیک ہیں یا نہیں میرے خیال میں یہ ایک ایسا وقت تھا جب کلرسیداں میں ایم سی کے حوالے سے ایک تنازعہ پیدا ہوگیا تھا جو ووقتہ طور پر حل ہو گیاہے لیکن اس کے اثرات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انکو کنٹرول کرنا مشکل کام ہے ایسی صورتحال میں دونوں گروپوں کے درمیان جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی تدابیر کی جاتیں موجودہ صورتحال میں یہ معاملہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید بڑھ گیا ہے ایم سی ممبران جو اس تیاری میں بیٹھے تھے کہ ان کو ترقیاتی فنڈز ملیں گے جن سے وہ اپنی وارڈز کے مسائل حل کریں گے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ہے جس کے باعث وہ مزید تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں یہ تیرہ رکنی گروپ بھی ن لیگ کا ہی حصہ ہیں چوہدری نثار علی خان کو چاہیے تھا کہ سب کو ساتھ لے کر چلتے ان کی حوصلہ افزائی نہ کر کے ان کی دل آزاری کی گئی ہے اس اقدام سے ایم سی میں 28رکن ن لیگ کے ہونے کے باوجود اپوزیشن بن گئی ہے اور وہ انتہائی مضبوط اپوزیشن جس کا سامنا ایسی صورتحال میں چیئرمین کے لیے مشکل ثابت ہو گا اگر اس تمام تر صورتحال کو صحیح طریقے سے ہینڈل کیا جاتا تو یہ پوزیشن پیدا نہ ہوتی جس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ (اپنے ہی گھر کو چراغ لگ گئی اپنے ہی چراغ سے)اب اس اپوزیشن کے پاس ایک آپشن یہ بھی موجود ہے کہ ان کا وائس چیئرمین استعفیٰ دے دے تو چیئرمین خود بخود فارغ ہوجاتا ہے ان تمام حالات سے پہلے اس گروہ کے پاس ایک اور بھی آپشن موجود تھا کہ اگر وہ اپنے ہی گروپ سے چیئرمین اور وائس چیئرمین دونوں کے کاغذات جمع کروا دیتے تو چودہ ارکان وہ خود تھے دو پی ٹی آئی اور ایک پی پی کا ملا کر کل سترہ ووٹ ان کو حاصل ہوجاتے اورآج ایم سی میں چیئرمین اور وائس چیئرمین دونوں ناراض گروپ سے ہوتے لیکن انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنا گوارہ نہ کی اور خود ذلت کا شکار ہو کر پارٹی کی عزت افزائی میں اضافہ کیا اور انہوں نے صرف اپنا احتجاج ہی ریکارڈ کروانے پر اکتفا کیا جو انکا جمہوری حق ہے اور یہ با ت پارٹی قیادت کو ناگوار گزری ہے اگر ا س گروپ کو علم ہو جاتا کہ تمام تر حالات کو کو تسلیم کرنے کے باوجود پارٹی قیادت ان سے ناراض ہوجائے تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور کلرسیداں کی تاریخ میں ن کا ایک نام ہو تا آج کو ان کو یہ طعنے بھی سننے پڑھ رہے ہیں کہ آپ کا گروپ تو کسی صورت شیخ عبدالقدوس کے ساتھ اپنا وائس چیئرمین نہیں بٹھائیں گے مگر پارٹی کے مفادات کو عزیز جانتے ہوئے اس گروپ نے اپنے ذمہ نقصانات لے لیے ہیں اس کے باوجود اس گروہ کو اس ڈگر پر لا کر چھوڑ دیا گیا ہے جہاں پر اگر وہ خود چلے جاتے تو ان کی عزت ہوتی اور کلرسیداں کی تاریخ میں ان کا ایک نام ہوتا لیکن تمام تر قربانیوں کے باوجود ان سے سلوک ایسا برتا گیا جسے وہ کسی ا ور پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اب یہ نو منتخب چیئرمین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرلیں جس سے پارٹی تقسیم نہ ہو وہ تمام ممبران سے برابری کی سطح پر برتاؤ کریں ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں ان کو اپنا مخالف نہ سمجھیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں ۔{jcomments on}
126