124

چوہدری نثار علی لیگی ممبران کے پریشرمیں آگئے ؟

چوہدری محمد اشفاق‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
22دسمبر 2016بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے انتخاب کا دن تھا جس کے تحت میونسپل کارپوریشن کلرسیداں میں بھی چےئرمین و وائس چےئرمین کے انتخاب کے لیے کاغذات بامزدگی جمع کروائے گئے تھے چےئر مین شپ کے لیے دو امیدواروں جن میں شیخ عبدالقدوس ان کے ساتھ وائس کے لیے راجہ ظفر نے کاغذات

جمع کروائے جبکہ ان کے مدمقابل حاجی محمداسحاق نے چےئرمین اور حاجی محمد اخلاق نے وائس چےئر مینی کے لیے کاغذات جمع کروائے تھے الیکشن سے چند روز قبل پارٹی قیادت نے ان امیدواروں سے ان کا جمہوری حق چھینتے ہوئے تمام امیدواروں کو اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کی ہدایات جاری کر دی گئیں امیدواروں نے پارٹی قیادت کے فیصلے کو دل سے تسلیم کیا اور کاغذات نامزدگی واپس لے لئے چوہدری نثار علی خان کی طرف سے یہ فیصلہ درست تھا کیونکہ عوام علاقہ بڑی بے چینی سے اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے بعد ان کے مسائل حل ہوں گئے مگر کلر سیداں میں اس وقت صورتحال ایسی تھی جس میں انتخاب کروانا بہت مشکل تھا اس طرح کلرسیداں کے لیے ایم سی کے سربراہ کا معاملہ مزید لٹک گیا تمام ممبران کے لیے مسائل پیدا ہو گئے اور نوبت کیھنچا تانی تک پہنچ گئی اور حالات آئے روز خراب تر ہوتے چلے گئے کیونکہ ایم سی ممبران میں سے ایک بڑے گروہ نے الگ دھڑا قائم کرلیا اور ان کی صرف ایک ہی آواز تھی کہ وہ شیخ عبدالقدوس کو کسی بھی صورت بطور چےئرمین قبول نہیں کرینگے اس طرح جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا جبکہ اس دوران پارٹی کا کوئی خاص کردار سامنے نہ آسکا اس عرصہ میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں چلتی رہیں اس طرح تین ماہ کا عرصہ گزر گیا اور الیکشن کمیشن کی طرف سے دوبارہ شیڈول کا اعلان کیا گیا تو دوبارہ وہی بحث پھر سے چھڑ گئی کہ اب کیا حالات پیدا ہوں گے ابھی یہ بحث جاری تھی کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے تمام ایم سی ممبران کلرسیداں کو پنجاب ہاؤس طلب کر لیا دونوں دھڑے اپنی اپنی جگہ غیر مطمئن تھے کہ نہ جانے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا بہرحال چودھری نثار علی خان نے شیخ عبدالقدوس کی بطور چیئرمین نامزدگی کا اعلان کیا تو چودہ رکنی گروہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی کیونکہ اس چودہ رکنی گروہ نے ایک دن قبل یہ طے کیا تھا کہ ان میں سے کسی کو بھی وائس چیئرمین نامزد کیا جاتا ہے تو یہ اس کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ چودھری نثار علی خان کے سامنے یہ اعتراض اٹھائے گا کہ وہ اور ان کا پورا گروپ شیخ عبدالقدوس کو بطور چیئرمین قبول نہیں کریں گے لیکن اس وقت چودہ رکنی گروہ کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب وفاقی وزیر داخلہ نے اسی گروپ میں سے ایک اہم رکن حاجی چوہدری محمد اخلاق کو بطور وائس چیئرمین نامزدگی کا اعلان کیا تو حاجی محمد اخلاق نے اپنے گروپ کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنی بطور وائس چیئرمین نامزدگی کو دل و جان سے قبول کیا اور اپنے مخلص ساتھیوں کو چھوڑ کر شیخ عبدالقدوس کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی اور نئے گروپ کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گئے اس اعلان کے فورا بعد چودھری نثار علی خان اپنے جگہ سے اٹھے اور ساتھ ہی چودہ رکنی گروپ جو اس وقت تیرہ باقی رہ گئے بھی اٹھ کھڑے ہوئے لیکن پھر بھی اس تلخ فیصلے کو پارٹی مفاد میں مسترد کرنے میں قطعی گریز کیا لیکن اس فیصلے کو مکمل طور پر قبول بھی نہ کیا پھر یہ ہوا کہ اس تیرہ رکنی گروہ جن کی توپوں کا رخ کسی اور طرف تھا وہ صرف اور صرف حاجی محمد اخلاق کی طرف مڑ گیا اورتمام ممبران میں سخت غم و غصے کی لہر دوڑ گئی کہ ان کی ٹیم کے اس ہم اور مخلص دوست نے ان
کے ساتھ ان کے معاہدے سے روگردانی کیوں کی ہے وہ اب اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ چیئرمین اور وائس چیئرمین جو دونوں ان کی مرضی کے خلاف نامزد ہو گئے کسی بھی طور پر ان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں کشیدگی مزید بڑھ گئی جبکہ دوسری طرف حاجی محمد اخلاق اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ چودھری نثار علی خان کسی بھی طور پر اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کریں گے اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی ایساممکن ہوا ہے لیکن ا س بار تھوڑا مختلف ہو گیا ہے
اس دوران بہت سی شخصیات اس معاملے کو سلجھانے میں مصروف ہو گئیں حاجی محمد اخلاق جن کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بہت سمجھ اور باریک بینی سے کام لینے والے انسان ہیں لیکن نہ جانے اس معاملے میں ان سے اتنی بڑی کوتاہی کیوں سرزد ہو گئی جس کے باعث وہ اپنے انتہائی اہم اور مخلص ساتھیوں سے بظاہر محروم ہو گئے ہیں لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں کیوں کہ اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے اس دوران تیرہ رکنی گروپ جس کو عابد زاہدی ،راجہ محمد خلیق اور چوہدری محمد ضیارب لیڈ کر رہے تھے مختلف تجاویز سامنے آئیں استعفوں کو پر بھی غور کیا گیا کاغذات نامزدگی بھی جمع کروانے پر غوروخوض کیا گیا لیکن چونکہ اس گروپ میں جو ممبران شامل تھے وہ انتہائی سمجھ بوجھ رکھنے والے مسلم لیگی کارکنان ہیں اور تمام کے تمام ن لیگ کے لیے اہم کردار بھی ادا کر رہے ہیں اور پارٹی کے لیے ان کی بے شمار خدمات بھی موجودہیں جس کے باعث ان کے مطالبات اور فیصلوں میں تھوڑی نرمی پیدا ہوئی اور ان کی تجاویز اور مطالبات بھی مان لیے گئے اور ان کے مطالبہ پر وائس چیئرمین کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور تمام معاملات طے پاگئے ہیں ان معاملات کو سلجھانے میں جہاں دیگر افراد نے نے کردار ادا کیا وہاں پر عابد زاہدی اور راجہ خلیق کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے باعث انہوں نے پارٹی کو تقسیم ہونے سے بچا لیا راجہ خلیق اور عابد زہدی نے قائدانہ کردار ادا کرکے کلرسیداں کی سیاست میں اپنا نام بنا لیا ہے انہوں نے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر چیئرمین اور وائس چیئرمین کی نامزدگیوں کے معاملے کو احسن طریقے سے انجام تک پہنچایا اور مقامی طور پر مسلم لیگ ن کی سیاست کے لیے ایک نہیا ت بامقصد اور مثبت اقدام اٹھایا ہے ان دونوں شخصیات نے ایم سی کو بکھرنے سے بچا لیا اور اپنے پورے دھڑے کے لیے عزت افزائی کا باعث بنے ہیں یہ تیرہ رکنی گروہ چودھری نثار علی خان کے لیے جاں نثار ہیں اوران کے اور ن لیگ کے اہم ورکر ہیں ان کی کاوشوں سے ن لیگ اس دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوئی ہے اب یہ دیکھنا یہ ہے کہ ان تمام حالات میں کس کو کیا حاصل ہوا اگر پہلے ہی جن امیداروں نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے اگر ان کو اپنا جمہوری حق استعمال کرنے دیا جاتا تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی اس تمام تر صورتحال میں نقصان صرف اور صرف ن لیگ کا ہوا ہے ا ب چونکہ سارے معاملات طے پا گئے ہیں چیئرمین اور وائس چیئرمین کو آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہو گی اور معاملات کو درست سمت میں لے جانا ہو گا ایم سی کے کچھ افراد موجود ہیں جن میں راجہ محمد خلیق ،راجہ ظفر ، چیئرمین اشرف ، عابد زاہدی اور اجہ کامران شامل ہیں اگر یہ ممبران صحیح طریقے سے اپنا کردار ادا کرتے رہے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا اب چونکہ نامزدگیوں کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے حالات کا تقاضا صرف یہ ہے کہ بہتری لائے جائے ماحول کو خوبصورت بنایا جائے اگر حالات کو سدھارنے میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام لیا گیا توان تمام حالات کے نتیجے میں ایک چنگاری جو وقتی طور پر ٹھنڈی ہو گئی ہے کل کسی بھی وقت شعلے کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور حالات اس ڈگر پر واپس آسکتے ہیں جن سے چھٹکارا حاصل بڑی مشکل سے حاصل ہوا ہے شیخ عبدالقدوس اور چوہدری ضیارب دونوں باریک بین ہیں وہ حالات اور ماحول کو اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ تمام ممبران کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور تمام ممبران کو اپنے ساتھ لے کر چل
یں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں