224

خالد چوہدری سینئر نیوز رپورٹر

میرا یہ دوست خالد چوہدری سینئر نیوز رپورٹر (نیو نیوز) جسکا ظاہر وباطن بالکل ایک جیسا صاف شفاف اس کی ساری باتیں اسکے دل کی باتیں ہوتی ہیں۔ انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے خوشیاں تقسیم کرتا جاتاہے اور اسے کیا خبر کہ ہر روز اسکے حصے میں کتنی نیکیاں جمع ہوتی جا رہی ہیں۔ کتب اور ادب سے اتنا لگاؤ کہ اسکے دھیمے لہجے سے مٹھاس بھری باتیں پھولوں کی پتیاں بانٹ رہی ہوتی ہیں۔ ہر انسان اندر سے کئی دکھوں اور تکلیفوں کی وجہ سے بکھرا پڑا ہوتا ہے مگر وہ اپنے دل و دماغ کو زخمی کرنے والے کانچ کے ٹکڑے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے خالد بھائی کو ہر وقت ہشاش بشاش خوبصورت اور رنگین باتیں اور خوشبو بھرے جذبات نچھاور کرتے ہوئے ہی پایا۔ دوستوں کی محفل میں جب بیٹھتے ہیں تو بہت کم بول کر سب کچھ بول جاتے ہیں۔ ان کا ماتھا ان کے باکردار ہونے کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ رپورٹنگ کے دوران جب بولتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی پتھروں والی ندی میں رم جم کی سریلی بانسری نما آواز کانوں میں رس گھول رہی ہو۔ حق وباطل کی گواہی ان کی رپورٹس سے عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ کینے اور بغض سے پاک یہ انسان صاف نیت لے کر صبح گھر سے نکلتا ہے اور مسکراہٹوں کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔ بار بار ایک شعر میرے زہن کو ابھار رہا ہے ملاحظہ فرمائیں
انسان سے انسان کو کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں ہو کینہ وہ سینہ نہیں اچھا
آپ سب دوست ساری زندگی اپنی اولاد کو اچھا درس دیتے رہیں اور یہ اچھی بات ہے مگر جب تک آپ اپنے بچوں کے سامنے اچھا کام کر کے نہیں دکھائیں گے تب تک آپ کی اولاد اس ڈگر پر نہیں چل سکتی۔ لہذا جو کام آپ بچوں کے کردار میں ڈالنا چاہتے ہیں وہ ہم سب کو اپنے بچوں اور اپنے طلباء وطالبات کے سامنے خود کرنا ہوگا تو تب ہماری نوجوان نسل سلجھی ہوئی قومِ بنے گی۔ خالد بھائی اپنے ہاتھوں اور دل ودماغ سے وہ سب کرتے ہیں جو وہ مستقبل کے معماروں سے کروانا چاہتے ہیں۔ ہم گھر میں اونچا بولیں گے تو بچے بھی اسی انداز میں بات کریں گے۔ اگر ہم عاجزی سے بات کریں گے تو بچے اسی ڈگر پر رواں دواں رہیں گے۔ لہذا لیکچر دینے سے عملی کام بہت کم ہوتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ اچھی باتیں بتانے کے ساتھ کچھ اچھا کرنا بھی ہوتا ہے۔ چوہدری خالد سنہری یادیں اور باتیں ہر وقت کرتے ہیں مگر ہر وہ بات خود کر کے بھی دکھاتے ہیں جو وہ اپنی مٹھاس بھری زبان سے ادا کرتے ہیں۔ اچھے اور تخلیقی لکھاری کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی انسان کو چلتے ہوئے اسکی چال ڈھال سے اور اسکے کپڑوں اور اسکے بالوں کے حلیے سے اس کی زندگی کا خاکہ کھینچ لیتے ہیں۔ خالد بھائی سے آج سے دس برس قبل میری ملاقات راولپنڈی کینٹ کے سمارٹ سکول میں ہوئی اور وہ بھی چار پانچ منٹ کی ایک ویڈیو خالد چوہدری نے میرے تاثرات پر مبنی بنائی اور پانچ منٹ مزید گپ شپ ہوئی اور انکی چند باتوں سے میں یہ جان گیا کہ یہ شخص ایک لمبے دریا کو چھوٹے کوزے میں بند کرنا جانتا ہے۔ بحث سے اجتناب کرنے والے اس شخص کو خالد چوہدری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بظاہر نرم دل مگر دوستوں پر کڑا وقت آنے پر سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتا ہے۔ خالد جس بات پر ڈٹ جائے پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنے اصولوں سے ہٹا نہیں سکتی۔ تو پھر مجھے کہنے دیجئے
موسم موسم آنکھوں کو اک سپنا یاد رہا
صدیاں جس میں سمٹ گئیں وہ لمحہ یاد رہا
قوس قزح کے رنگ تھے ساتوں جسکے لہجے میں
ساری محفل بھول گئی وہ چہرہ یاد رہا
یہ چہرہ ہر وقت ہنستا مسکراتا اور زندگی بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنا غم اللہ کے سامنے ظاہر کرتا ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے کریم رب کو ہمارے دکھوں کا علم نہ ہو۔ ہر دکھ میں اور ہر خوشی میں رب کی آزمائش ہوتی ہے مگر کچھ لوگ سہولتوں کے مل جانے پر مغرور ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ سہولتوں کے چھن جانے پر اللہ سے شکایتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جسے میرا رب ہر گز پسند نہیں کرتا۔ میرا مالک دولت دے کر بھی آزماتا ہے اور غربت دے کر بھی آزما ہی رہا ہوتا ہے۔ جب اللہ دنیا کی ہر نعمت دے دے تو اسکا شکر ادا کرو اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے دوسروں کو دینے والے بن جاؤ اور جب کچھ بھی پاس نہ ہو تو یہ سوچ کر شکر ادا کرو کہ اگلے جہان ہم سے ہر گز پوچھا نہیں جائے گا کہ اتنی دولت کہاں خرچ کی ہے۔ خالد چوہدری ہر حال میں خالق کائنات کے شکر گزار بندوں کی صف میں رہتے ہیں اور یہ اس شخص کا کمال ہے۔ جاتے جاتے بس اتنا کہوں گا کہ ہماری سوچ اور ہمارے کردار سے ہماری آنے والی نسلوں کی کامیابی اور ناکامی جنم لے چکی ہوتی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ میرا مالک ہم سب کو بہترین راستے کا مسافر بنائے رکھے اور خالد بھائی کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ترین فرمائے آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں