335

موہڑہ بھٹاں

میرا گاؤں موہڑہ بھٹاں ہےجوکہ راولپنڈی سے مشرق کی جانب سے پینتیس کلومیٹر کےفاصلےپرکلرسیداں روڈ کے ساتھ واقع ہے یہ یونین کونسل مغل کا ایک تاریخی گاؤں ہے اس کی آبادی ہزاروں نفوس پر مشتمل ہےجن میں اکثریت روزی کمانے کاخاطر بیرون ممالک میں مقیم ہےتعارف:چوہدری محمد عظیم۔۔۔۔03465747649

میرا گاؤں موہڑہ بھٹاں ہےجوکہ راولپنڈی سے مشرق کی جانب سے پینتیس کلومیٹر کےفاصلےپرکلرسیداں روڈ کے ساتھ واقع ہے یہ یونین کونسل مغل کا ایک تاریخی گاؤں ہے اس کی آبادی ہزاروں نفوس پر مشتمل ہےجن میں اکثریت روزی کمانے کاخاطر بیرون ممالک میں مقیم ہے باقی گاؤں میں رہنے والےبیشتر افراد کا پیشہ کھیتی باڑی ہےہمارے گاؤں میں دوفصلیں سال میں بوئی جاتی ہیں ان میں ایک گندم جبکہ دوسری مکئی ہے فصل کی کٹائی کے موقع پر گاؤں کےلوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتےہیں تاکہ ان کا کامجلد ختم ہوسکے میرے گاؤں میں ایک گورنمنٹ بوائز اور ایک گرلز پرائمری سکول ہےمیرےگاؤں کے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کروانے کی بجائےگھرسےدورساگری مانکیالہ شاہ باغ کے علاقوں کے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم دلوانےکو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنے گاؤں کے بوائز پرائمری سکول میں طالبعلموں کی تعداد انتہائی کم ہوکررہ گئی ہے جب کہ وہاں تجربہ کار تین اساتذہ موجود ہیں

میرےگاؤں میں پاکستان بننے سےقبل بیشتر سکھ اور ہندؤ آباد تھے ان کو یہاں سے گئےتریسٹھ سال کا عرصہ گزرگیا لیکن ان کی بنائی گئیں عبادت گاہیں مندر کی شکل میں ابھی تک موجود ہیں جو کہ ایک تاریخی گاؤں ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ ایک مندرکےبالمقابل حال ہی میں ایک خوبصورت مسجد تعمیرکرائی گئی ہے جس پر لاکھوں روپےخرچ ہوئے ہیں اور یہ اخراجات انگلینڈ اور ہانگ کانگ میں مقیم گاؤں کے لوگوں نےبرداشت کئے ہیں مسجد کے مینار کی اونچائی ایک سوفٹ ہے جوکہ میلوں دورسے نظرآتا ہےجبکہ مسجد کے اندرسے تزئین شیشوں سے کی گئی ہے شاندار مسجد بننے کی وجہ سے دوردورسے لوگ اس کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں میرے گاؤں میں بجلی ٹیلیفون گیس اور پانی جیسی سہولتیں موجود ہیں لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اللہ تعالی دعا ہے کہ وہ میرے گاؤں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائےاور گاؤں کے لوگوں میں اتفاق واتحاد سےزندگی گزارنے کی توفیق دے.آمین

ثناء اللہ اختر، دانشورکے مطابق موہڑہ بھٹاں کی تاریخ

پاکستان کے قیام سے قبل جب میں اپنی اوائل عمر میں راولپنڈی کے ایک موضع موہڑہ وینس میں تھا تو اس کی تمام آبادی مسلمان ہونے کی بنا پر غیر مسلموں کے بارے لاعلم تھا مگر پرائمری سکول موہڑہ بھٹاں میں پانچ سال کی عمر میں داخلہ لیا تو سکھ اساتذہ کی مخصوص پگڑیوں اور اپنے ہم جماعت لڑکوں کے سروں پر لٹیں دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس علاقے میں دوسری قومیں بھی موجود ہیں اور اسی طرح ایک دن اساتذہ نے وقت سے پہلے ہی چھٹی دے دی اور سکول کے باہر آکر دیکھا کہ ایک میت کے ساتھ لوگ بجائے افسردہ حالت میں ڈھول بجاتے ہوئے جارہے تھے۔ جس پر حیرانی ہوئی۔ تعلیم کے دوران ہندوؤں اور سکھ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے تھے مگر اچھوت وغیرہ سے بھی بے خبر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب میں اپنے ہندو ہم جماعت کے گھر گیا تو اس کی والدہ نے مٹھائی کھلائی۔ آزادی کی تحریکوں کے بارے میں سوائے خاکسار تحریک کے علم نہ تھا اور وہ بھی اس وجہ سے میرے والد راجہ شیر زمان خاکسار تحریک سے وابسطہ یعنی سالا ر ضلع تھے اور ان کی ایک فوٹو ڈرائنگ روم میں آویزاں تھی اور ایک چمک دار بیلچہ بھی موجود تھا اور جب وہ گاؤں آتے تھے تو کئی خاکسار وردیوں میں اور بیلچوں کے ساتھ سے ملنے آتے تھے۔ اس وقت کے سیاسی رہنماؤں قائداعظم، مسٹر گاندھی یا علامہ مشرقی کا نام نہیں سنا تھا۔ البتہ علامہ اقبال کے بارے میں معلوم تھا کیونکہ ان کے اشعار خوبصورت فریموں میں ڈرائنگ روم میں لگے ہوئے تھے۔ پہلی بار1945ء میں کسی شخص نے سکول کے باہر ایک پوسٹر چسپاں کیا۔ جسے دیکھنے کیلئے طالب علم اور عام لوگ جمع ہوگئے۔ اس میں مہاتما گاندھی کو قائداعظم سے مخاطب ہوکر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جبکہ قائداعظم نے اپنا چہرہ دوسری طرف کیا ہوا تھا۔ جیسے کہ وہ ان کی بات سننا نہیں چاہتے۔ یہ گاندھی جناح مذاکرات کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے الگ الگ گاؤں تھے جو پرامن طور پر کھیتی باڑی یا دکانداری وغیرہ کرتے تھے اور ان میں تعلیم یافتہ سکول ٹیچر یا دفاتر میں کلرک یعنی بابو تھے اور صرف ان ہی سیاسی حالات سے زیادہ دلچسپی تھی اور ایسی سرگرمیوں کے مراکز شہری آبادی میں تھے۔ 1947ء میں جب پاکستان بننے کی اطلاع ہوئی تو سکول بند کردیا گیا۔ کیونکہ لوٹ مار، آگ لگانے اور غنڈوں کے حملوں کی خبریں آنے لگیں۔ ایک دن بعد دوپہر چند ہندو اور سکھ ہمارے گاؤں آئے اور کہا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ میں نے بھی ان کو ہمارے رشتہ داروں سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے دیکھا۔ جن سے انکی ہمیشہ سے دوستی رہی تھی اور وہ پھر بوجھل قدموں کے ساتھ چلے گئے اور دوسرے دن موہڑہ بھٹاں کے تمام غیر مسلم اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پاکستان کے قیام سے متعلق جوتصور اور خواب مسلمانوں نے دیکھا تھا اسکی تعبیر کی آرزو دل میں ہمیشہ رہتی ہے کاش یہ آرزو ہماری زندگی میں پوری ہوجائے۔

موہڑہ وینس کے رہائشی ماسٹر محمد ارشاد کے مطابق جب وہ 1943میں گورنمنٹ پرائمری سکول موہڑہ بھٹاں میں داخل ہوئے تواس وقت سکول میں ہیڈماسٹر بالک سنگھ اور ماسٹر امرناتھ پڑھاتے تھے جو کہ موہڑہ بھٹاں ہی کے رہائشی تھے۔ اس وقت سکول کے دو تین کمرے تھے گاؤں میں ایک کپڑے کی بہت بڑی دکان تھی جس کا مالک سکھ تھا۔ گاؤں کے گردونواح میں تقریباً چھ تالاب(بن) تھے جن کے کنارے اینٹوں اورپتھروں سے پختہ کیا گئے تھے ان تالابوں میں کے کناروں پر برگد، پیپل اور شہتوت کے درخت ہوا کرتے تھے۔یہاں بسنے والا ہندو اور سکھ جو امیر اور صاحب جائیداد تھے۔ قیام پاکستان وقت موہڑہ بھٹاں واحد ایک ایسا گاؤں تھا جہاں کوئی خون ریزی نہ ہوئی بلکہ یہاں کے رہنے والے لوگوں کے گردونواح کے گاؤں موہڑہ وینس، آراضی سوہال، موہڑہ جمعہ اور لوہدرہ کے لوگوں کے ساتھ دوستی بھائی چارے تھے اور وہ جانے سے قبل ان لوگوں کے پاس رات کو رہے اور ملاقاتیں کیں دوسرے دن مانکیالہ ریلوے اسٹیشن پر انگریز فوج آئے جنہوں نے علاقہ میں موجود ہندوؤں اور سکھوں کو اکٹھا کرکے پرامن طور پر انڈیا پہنچایا۔یہ لوگ اپنا سارا قیمتی سامان ودیگر جانور یہاں ہی چھوڑ گئے تھے جو انڈیا سے آنے والے مہاجرین نے موہڑہ بھٹاں میں آکر آباد ہوئے انہوں نے اس سامان کو سستے داموں فروخت کیا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

موہڑہ بھٹاں“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں