انسانی تاریخ میں علم کی تلاش ایک فطری جذبہ رہی ہے۔ کبھی یہ تلاش مذہب کے دائرے میں تھی، کبھی فلسفے کے زیرِ سایہ اور کبھی سائنس کی تجربہ گاہوں میں۔ لیکن ایک سوال ہمیشہ ذہنوں میں گردش کرتا رہا ہے: کیا سائنس اور اسلام ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ یا پھر یہ دونوں حقیقت کی تلاش کے دو راستے ہیں جو بالآخر ایک ہی منزل کی طرف لے جاتے ہیں؟اسلام نے سب سے پہلے انسان کو علم حاصل کرنے کی دعوت دی۔ قرآنِ کریم کی پہلی وحی ہی َ سے شروع ہوتی ہے،یعنی پڑھو، اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ یہ آیت دراصل علم کے سفر کا آغاز ہے اور یہی وہ لمحہ تھا جب اسلام نے انسان کو تحقیق، مشاہدہ اور تفکر کی طرف متوجہ کیا۔پیغمبرِ اسلام ﷺنے فرمایا:”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔”یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں علم محض مذہبی نہیں بلکہ دنیاوی اور سائنسی علوم پر بھی یکساں زور دیا گیا ہے۔ مسلمان جب اس پیغام پر عمل پیرا ہوئے تو انہوں نے دنیا کو وہ سنہری دور دیا جسے آج ”اسلامی عہدِ سائنس“ کہا جاتا ہے۔
ابنِ سینا، الخوارزمی، البیرونی، ابن الہیثم اور جابر بن حیان جیسے مفکرین نے طب، ریاضی، فلکیات، کیمیا اور طبعیات میں ایسی بنیادیں رکھیں جن پر آج کی جدید سائنس کھڑی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے لیے علم صرف دنیاوی فائدے کا ذریعہ نہیں بلکہ خالقِ کائنات کی نشانیوں کی تلاش کا راستہ تھا۔مگر آج، بدقسمتی سے، بعض لوگ سائنس اور اسلام کو ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑا کر دیتے ہیں۔ سائنس مادی حقائق پر زور دیتی ہے اور مذہب روحانی پہلوؤں پر؛ لیکن یہ دو الگ دنیائیں نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے مختلف زاویے ہیں۔ جہاں سائنس ”کیسے“ کا جواب تلاش کرتی ہے، وہاں اسلام ”کیوں“ کا جواب دیتا ہے۔قرآن بار بار کائنات کی تخلیق، اجرامِ فلکی، بارش کے نظام، نباتات اور انسانی جسم کی بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دراصل سائنسی سوچ کی بنیاد ہے۔ اگر قرآن غور و فکر کی تعلیم دیتا ہے تو سائنس اسی غور و فکر کا عملی اظہار ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم علم کے اس دوہرے پہلو یعنی مذہبی اور سائنسی کو متضاد نہیں بلکہ متکمل سمجھیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے ایسے نصاب متعارف کروائیں جو طلبہ کو سائنس کی روح کے ساتھ ایمان کی روشنی بھی عطا کریں۔ جب تک علم، تحقیق اور ایمان کا یہ توازن بحال نہیں ہوگا، ہم مذہبی لحاظ سے مضبوط بن سکیں گے، نہ سائنسی میدان میں ترقی کر سکیں گے۔آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسلام اور سائنس دو مخالف قوتیں نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمہ حقیقت کے دو بہتے ہوئے دھارے ہیں۔ ایک ہمیں خالق کی تخلیق دکھاتا ہے، دوسرا خود خالق کی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔
عشارب ندیم