ڈاکٹر صفدر محمود پیشے کے لحاظ سے بیوروکریٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی شخصیت بھی تھے ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے مدت عمر کے دوران انہوں نے کئی کارنامے انجام دئیے
۔ انہوں نے تحریک اور تاریخ پاکستان پر کئی کتب قلمبند کی ہیں۔پاکستان کے دولخت ہونے پر بھی انہوں نے پاکستان کیسے ٹوتا جیسی معرکتہ الآرا کتاب لکھی ہے۔وہ بین الاقوامی امور پر بھی اچھی دستگاہ رکھتے تھے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور عمر ڈھلنے پر وہ تصوف کی طرف مائل ہو گئے تھے وہ جو کہتے ہیں بڑے لوگوں کے کام بھی بڑے ہوتے ہیں اس کے مصداق انہوں نے تصوف پر بھی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں
اللہ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اس وقت ان کی کتاب ”بصیرت“ زیر نظر ہے جو ان کے اخباری کالموں پر مشتمل ہے۔اخباری کالم چونکہ روزانہ مختلف موضوعات پر لکھے جاتے ہیں
اس لیے اس کتاب میں بھی متنوع موضوع زیر بحث آئے ہیں لیکن مصنف کا طبعی رجحان دینی ہے اس لیے زیادہ کالموں کا موضوع تصوف و احسان ہی ہے وہ خارق العادت واقعات کو بہت اہمیت دیتے ہیں
دعا کو بندے کے ساتھ اللہ کے تعلق کو بہت مضبوط رشتہ سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے انسان کو دعا کی اجازت دے کر خزانوں کی کنجیاں دے دی ہیں۔
سائیں مست اقبال کی حضرت داتا گنج بخش کے ساتھ روحانی ملاقاتوں کا ذکر بہت ذوق و شوق سے اور دلچسپ انداز میں کرتے ہیں زندگی کا نصیبہ موت ہے جو ایک بڑی حقیقت ہے مصنف بعد موت کی زندگی پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔مدینہ منورہ کا ذکر انتہائی دلربا ا نداز میں ہے
جہاں صوفی اسلم اور حضرت مست اقبال کا تذکرہ دل میں اتر جانے والا ہے۔وہ کہتے ہیں درویش انسان کی لوح مقدر تک نگاہ رکھتے ہیں،یہ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے
باالخصوص تصوف سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے متاع بیش بہا ہے اور ڈاکٹر صفدر محمود کی طرف سے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔