نگران حکومت نے ایسے وقت میں ملک کا اقتدار سنبھالا جب ملک کے حالات انتہائی خراب تھے مہنگائی عروج پر تھی چیزوں کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی تھیں، پیٹرول کی اور بجلی کی قیمتوں میں خاص طور پر اضافہ ہو رہا تھا یعنی ’سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے‘نگران حکومت کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نگران حکومت نے کسی بات کی ذمہ داری اپنے سر لینے یا کسی مسئلے کے حل کرنے کی کوشش کرنے یا عوام کے داد رسی کی بجائے گزشتہ حکومتوں کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے فقط باتوں سے کام چلانا شروع کر دیا ہے اور عوام کو تسلی دینے کی بجائے انہیں دھمکانے پہ اتر ائیہے۔ وزیر خزانہ نے بجلی کے بلوں پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے کہا کہ یہ بل تو ہمارے دور کے نہیں ہیں یہ گزشتہ حکومت کے دور کے ہیں مطلب یہ کہ ہم اس پر ریلیف نہیں دیں گے کیونکہ یہ گزشتہ حکومت کے دور کے بل ہیں اگر ہمارے دور کے بل ہوتے تو تب ہم ریلیف دیتے۔ تو ان سے یہ کہنا چاہیے کہ آپ ایسا کریں اگر آپ گزشتہ حکومت کے بلوں پر ریلیف نہیں دے سکتے تو آپ ان بلوں کا مطالبہ بھی مت کیجئے جنہوں نے بل نہیں جمع کرائے وہ جانیں اور گزشتہ حکومت جانے کیونکہ ان کے دور کے بل ہیں آپ کے دور کے نہیں ہیں آپ نہ ریلیف دیں اور نہ ہی ان کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آگئے تو عوام انہیں بل جمع کروا دیں گے آپ اس طرف سے بالکل بے فکر رہیں۔
اسی طرح نگران وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ عوام کو پورے پورے بل دینے پڑیں گے اور ان کے احتجاج اور بلوں کو جلانے سے بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی مطلب یہ کہ وہ عوامی احتجاج کو خاطر میں نہیں لانا چاہ رہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جتنا چاہے احتجاج کر لیں ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ ابھی تک شاید انہوں نے عوامی احتجاج دیکھا نہیں ہے اگر عوام بھرپور طریقے سے احتجاج پر اتر ائیں اور عوام غم و غصے میں مبتلا ہو جائیں تو پھر حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ انہیں روک سکیں انہوں نے شاید یہ محاورہ نہیں سنا کہ ’فوج فوج کے خلاف تو لڑ سکتی ہے لیکن عوام کے خلاف نہیں لڑ سکتی‘تو یہاں تو عوام کا فوج کے ساتھ نہیں بلکہ سول حکومت کے ساتھ مقابلہ ہے تو جب فوج عوام کے خلاف نہیں لڑ سکتی تو سول حکومت کون ہوتی ہے جو عوام کو للکارے یا عوام کو دھمکیاں دے۔ اگر عوام بپھر گئے یا عوام نے بھرپور طریقے سے احتجاج شروع کر دیا تو لامحالہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔
نگران وزیراعظم کی حالت بھی اپنی کابینہ سے کچھ کم نہیں ہے وہ بار بار میڈیا پر آ کے یہی کہہ رہے ہیں کہ کسی کو مفت بجلی نہیں دی جائے گی لوگوں کو پورے پورے بل ادا کرنے پڑیں گے، ان سے یہ پوچھا جائے کہ مفت بجلی استعمال کون کر رہا ہے وہ عوام سے مخاطب ہو رہے ہیں جو پہلے ہی مہنگے بل ادا کر رہے ہیں۔ ان سے یہ پوچھا جائے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں کہ مفت بجلی نہیں دی جائے گی کیا یہ حکم صرف عوام کے لیے ہے یا ان طبقات کے لیے بھی ہے جوواقعی مفت بجلی استعمال کر رہے ہیں جن میں کچھ اداروں کے لوگ ہیں اور باقی بیوروکریٹس وغیرہ ہیں جو کئی کئی ہزار یونٹس مفت بجلی استعمال کرتے ہیں تو کیا یہ حکم ان کے لیے بھی ہے؟یقینا ان کا حکم بیوروکریٹس یا اداروں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہی ہے جو پہلے سے ہی بجلی کے بھاری بھرکم بل ادا کر رہے ہیں تو یہ تو سراسر عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
ایسے ہی نگران وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اتنی بھی مہنگائی نہیں ہے کہ اس کے لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے یا بجلی کے بل اتنے بھی زیادہ نہیں ہیں جتنے بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ دراصل محترم جناب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر مفت کی بجلی استعمال کریں گے تو انہیں یہی لگے گا کہ بجلی کی قیمتیں کم ہیں یا مہنگائی بہت کم ہے، ذرا عوام میں آئیں دو دن عوام کسی عام شخص کے گھر میں گزاریں یہاں دیکھیں کہ وہ کتنی بجلی استعمال کر رہے ہیں اور بل کتنے آرہے ہیں۔ذرا عوام میں ا کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ مہنگائی کتنی زیادہ ہے اور بل کس قدر آرہے ہیں۔ یہ تو بہت زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں جنہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ مہنگائی ملک میں کتنی زیادہ ہے؟عوام کس قدر پریشان ہیں اور بل کتنے زیادہ آ رہے ہیں اور ہر چیز کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہیں۔ جب انہیں اس بات کا علم ہو گا تو وہ ٍاسے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے جب وہ تسلیم کریں گے کہ مہنگائی ہو چکی ہے تو وہ اسے کم کرنے کی کوشش کریں گے اگر وہ اس بات کو مانیں گے ہی نہیں تو پھر وہ کنٹرول کیا کریں گے۔
اب یہ عوام کا کام ہے کہ ان سے منوائیں کہ واقعی مہنگائی ہو چکی ہے واقعی بل بہت زیادہ آرہے ہیں، یہ عوام پر ہے کہ وہ کیسے منواتے ہیں۔ اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ پرامن احتجاج کیا جائے اور پرزور احتجاج کیا جائے تاکہ حکومت کی آنکھیں کھلیں اور وہ عوام کو ریلیف دینے پر مجبور ہو جائے اگر عوام اپنے حق کے لیے نہیں نکلیں گے تو اسی طرح پستے رہیں گے۔ اس مہینے جو بل آئے ہیں اگلے مہینے اس سے کئی گنا زیادہ آئیں گے اور اگلے مہینے اس سے کہیں زیادہ مہنگائی بڑھ چکی ہوگی تو اس لیے اب عوام کو اپنے حق کے لیے نکلنا چاہیے۔ اگر اب بھی خاموش رہیں گے تو پھر خودکشیوں یا ملک سے بھاگ نکلنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
204