188

یوم مزدور اور ہم

تو قادر وعادل ہے مگر تیرے اس جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات (اقبال)
یکم مئی کا دن ہر سال آتا ہے۔ اور ہر سال اس دن ہمارے سکو ل کالج سرکاری دفاتر ادارے مارکیٹیں اور دکانیں بند ہوتی ہیں۔اور یہ نعرہ بھی لگایا جاتا ہے کی یہ محنت کشوں کا دن ہے۔معماروں کا دن ہے۔مزدوروں کا دن ہے۔مزدور اس دن فیکٹریوں ملوں کو بند کر کے جلوسوں کی شکل میں نکل آتے ہیں۔پرامن جلوس بھی ہوتے ہیں۔نعرے بازی اور ہنگامے بھی۔سرخ جھنڈے لہراکے قرار دادیں پیش کی جاتی ہیں۔اس دن کو منانامزدور اپنا حق سمجھتا ہے۔
یکم مئی کی تاریخی حیثیت: انیسویں صدی کے نصف میں روس میں مزدوروں سے روزانہ انیس بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔او ر معاوضہ اتنا بھی نہیں دیا جاتا تھا کہ وہ اور ان کے بیوی بچے دو وقت پیٹ بھر کے اچھا کھانا کھا سکیں۔وہ ہاتھ جو فصلیں اگاتے تھے ان کے بچے اچھے کھانے کو ترستے تھے۔وہ ہاتھ جو کھڈیوں اور فیکٹریوں میں ہزاروں اور لاکھوں گز کپڑابنتے ان کی عورتیں جسم چھپانے کو ترستی۔فیکٹری کے کسی حصہ میں آگ بھڑک اٹھتی تو کئی مزدور جل کر راکھ ہو جاتے سرمایہ دار یہ کہتے ہوئے نظر انداز کر دیتا کہ کام کے دوران حادثات ہو سکتے ہیں۔مزدوری کرتے وقت مر کھپ جانا ہی کام کا حصہ ہے۔انہیں مزدوروں کی وجہ سے خام مال تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل ہو رہا تھا۔سرمایہ دار اپنی عیاریوں سے غریب کا خون چوس رہے تھے۔اوقات کار کا کوئی تعین نہ تھا۔امریکہ میں بھی مزدور سولہ سولہ گھنٹے کام کرتا تھا۔امریکہ اور روس کی متمدن تہذیب کا یہ حال تھا کہ وہاں ہل چلانے والے بیل کی طرح مزدور کو مشین چلانے والا ترقی یافتہ جانور سمجھا جاتا تھا۔فیکٹریوں میں کام کرنے والے غلام سمجھے جاتے تھے۔جب مزدور پر ظلم حد سے تجاوز کر گیا تو پھر 1884میں سب سے پہلی آواز نیو یارک میں اٹھائی گئی لیکن باقاعدہ تحریک چلانے کا سہرا امریکہ کے مزدوروں کو جاتا ہے۔شگاگو کی ہائی مارکیٹ سکوائر پرمزدوروں کو گولیاں ماری گئی جس میں کئی مزدورہلاک ہو گئے مگر ان کا خون رائے گاں نہیں گیا۔
1890سے باقاعدہ یوم مزدور منانے کا سلسلہ شروع ہو ا جو آگے چل کر بین الاقوامی احتجاج کا دن ہو گیا۔اور یکم مئی کویو م مزدورکے طور پر منا یا جانے لگا۔آج اگر ہم 8,8گھنٹے کام کر رہے ہیں تو شگاگو کے ان عظیم مزدوروں کی بدولت ہے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ہمیں جنگل کے قانون سے آزاد کرایا۔مگر افسوس آج دعوے تو ہر جگہ کیے جاتے ہیں،ہر ادارے میں مزدور تنظیمیں تو موجود ہیں لیکن حقیقت میں مزدور سے مالک تک ہر شخص چور ہو چکا ہے نہ مزدور پورے طریقے سے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہا ہے کہ مالک پورے طریقے سے اس کے حقوق ادا کررہا ہے اس کشمکش کا نقصان ہمارے اداروں کو بھگتناپڑ تا ہے۔آ ج مزدور اور مالک کے اندر وہ پرانا سوز ختم ہو گیا ہے کام کی وہ لگن ختم ہو گئی ہے۔
دم طوف کرمک شمع نے کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تیری حکایت سوز میں نہ میری حدیث گزار میں
حدیث میں آتا ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا حق ادا کر دیا جائے مگر دیکھنا یہ بھی ہے کہ مزدور پہلے اپنا پسینہ نکال بھی رہا ہے یعنی اس محنت سے کام کر بھی رہا ہے کہ نہیں یقینانہیں۔دفتری کا م ہو یا کوئی بھی جسمانی کام اس کام کی صلاحیت اور طاقت ہونی چاہئے۔دوسرا مزدور کا مالک کے مفادات کا امین ہونا چاہئے۔جو کام اسے سونپا جائے اسے وہ امانت اور دیانت سے کرنے والا ہو۔اگر مزدور اپنے کام کو نیک نیتی سے نہیں کرتا تو ہو سکتا ہے دنیا میں تو وہ مالک کی آنکھو ں میں دھول جھونک دے لیکن آ خرت میں وہ اللہ کے ہا ں جواب دہ ہو گا کیونکہ حدیث نبوی ﷺ ہے “تم میں سے ہر کوئی نگران اور مسؤل ہے۔اور ہر ایک سے اس کی مسؤلیت کے بارے میں پوچھا جائے گا”آج کا دن منانے کا مقصد مزدور کی عزت نفس کا خیا ل رکھنا مزدور کو اچھا کھا نا دینا اچھا کپڑا دینا۔نیز اس سے بڑھ کر اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مز دوری دینا۔مزدور کو وہ کام کرنے کے لیے کہا جائے جس کی وہ طاقت رکھتا ہے۔آج کا دن منانے کا مقصد ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا بھی تعین ہونا چاہئے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں