983

یوسی چیئرمین نے چوہدری نثار کو کھری کھری سنا دیں

پنڈی پوسٹ مسعود جیلانی
چوہدری نثار علی خان ملکی سیاست کا ایک بہت بڑا نام تھے لیکن آئے روز ان کی سیاست تنزلی کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے اگر چہ ان کے حامی اب بھی کبھی ان کے وزیر اعلیٰ بننے اور کبھی پی ٹی آئی کا حصہ ہونے کے خواب دیکھ کر دل کو تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں چوہدری نثار علی خان صاحب کی سیاست کس رخ پہ جا رہی ہے اس کا اندازہ چوہدری نثارعلی خان کے حالیہ حالات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے انہی حالات و واقعات میں سے چک بیلی خان میں ہونے والا ایک واقعہ قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں جس سے پڑھنے والوں کو یہ اندازہ لگانے میں کافی مدد ملے گی کہ چوہدری صاحب کی سیاست کے حالات کس طرف جا رہے ہیں چک بیلی خان میں چوہدری نثار علی خان کے انتہائی قریبی ساتھی وفات پا گئے چوہدری صاحب کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے علاقے میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے اس بات پر شرطیں لگانا شروع کر دیں کہ آیا چوہدری صاحب اپنے ساتھی کی وفات پر تشریف لائیں گے یا نہیں کسی نے کہا کہ نہیں آئیں گے، کسی نے کہا جنازے میں آئیں گے کسی نے دعویٰ کیا کہ چوہدری صاحب جنازے میں نہیں آئیں گے البتہ تعزیت کیلئے ضرور آئیں گے چاہے جنازے والی شام کو ہی آ جائیں خیر چوہدری صاحب دوسرے روز تعزیت کے لئے آ گئے تعزیت کے بعد جانے لگے تو مرحوم کے بھائی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک غیر سیاسی آدمی ہوں اس لئے پانچ آدمیوں کے نام تجویز کر رہا ہوں جنہیں مرحوم کے بعد گروپ کا نظام چلانے کیلئے ذمہ داری دے دی جائے ان پانچ آدمیوں میں یونین کونسل چک بیلی خان کے حالیہ چیئر مین صغیر احمد گجر کا نام سنتے ہی چوہدری نثار علی خان سیخ پا ہو گئے وجہ یہ تھی کہ صغیر احمد گجر نے حالیہ کشمیر الیکشن میں ن لیگ کا کیمپ لگایا تھا اور مرحوم کے جنازے میں ن لیگ کے صوبائی نائب صدر قمر الاسلام راجہ کی بھی آؤ بھگت بھی کی تھی جو چوہدری نثار کو ناگوار گذری انھوں نے واضع کہا کہ اس آدمی کی پارٹی الگ ہے لہٰذا فی الحال ذمہ داری باقی چار آدمیوں میں رہے ان میں سے ایک کا انتخاب بعد میں کر لیا جائے گا مجوزہ چار میں سے کچھ اور مرحوم کے بھائی نے چوہدری صاحب کو چیئر مین صغیر گجر کے گروپ کے ساتھ مخلص ہونے کی یقین دہانی کروائی جسے چوہدری صاحب نے مسترد کر دیا اتنے میں صغیر گجر نے خود اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو چوہدری نثار صاحب کا غصہ حسب روایت زیادہ ہو گیا چوہدری صاحب کا غصہ دیکھ کے صغیر گجر بھی برابری پر اتر آیا برابری کی اکڑ دکھانی شروع کر دی اور کہا کہ ہم کسی کے دانے نہیں کھاتے جو کسی کی ہدایت پر چلیں چوہدری نثار صاحب غصے سے چل دئیے تعزیت کا ماحول بھی خراب ہو گیا بات باہر نکلی تو ہوٹلوں، تندوروں اور گلی کوچوں پر تجزئیے شروع ہو گئے خیر یہی باتیں ہوئیں کہ اب اتنی باتیں سننے اور سنانے کے بعد پھر بھی کارکن اور قائد اکٹھے چلے تو ان کے رویے کا اللہ ہی حافظ ہے اس واقعہ کے دوران چوہدری صاحب
نے کہا کہ وہ نہ منافق ہیں اور نہ منافق ساتھی کو پسند کرتے ہیں یہ منافق نہ ہونے کا دعویٰ ہم اس وقت سے سنتے آ رہے ہیں جب چوہدری صاحب میاں نواز شریف ساتھ تھے اب کیوں الگ ہوئے اس میں منافق چوہدری صاحب تھے یا میاں صاحب یہ تو چوہدری صاحب خود ہی بتا سکتے ہیں اس کے علاوہ ایک صغیر گجر ہی نہیں بے شمار کارکن ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے چوہدری صاحب کا ساتھ چھوڑا تو انھیں جلسوں میں منافق کہا گیا پھر جب وہ واپس ان کے ساتھ آ گئے تو پھر مسلمان ہو گئے حالانکہ مومن کی تعریف تو یوں بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتاخیرکون منافق ہے اور کون ایمان والا اس کا فیصلہ توروزِ قیامت کو ہی پتا چلے گا لیکن موجودہ سیاسی تناظر میں ایسے واقعات کو دیکھا جائے تو چوہدری صاحب کی سیاسی حالت پہلے ہی بہت پتلی ہے دوسری جانب چوہدری صاحب کا اقتدار کا خمار بھی ابھی تک نہیں اترا کارکن بھی انھیں خوابوں میں وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بنا رہے ہوتے ہیں اگر یہ لوگ نہ جاگے تو کبھی ان کی صبح نہیں ہو گی اور یہ اندھیرے میں ہی رہ کر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے خواب ہی دیکھتے رہیں گے چوہدری صاحب کو جان لینا چاہیئے کہ وہ اب اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ کارکن ان کی باتیں برداشت کرنا شروع کر دیں اب ہر جگہ انھیں کارکنوں کی باتیں سننا اور برداشت کرنا پڑیں گی پھر بھی پہلے والی منزل ملنا مشکل ہی نظر آتی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں