گھڑا نواز محمد پرویز منگرال

خطہ پوٹھوہار کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں قدیم گائیگی”آواز یا گال” تھی,جو پوٹھوہار کے صاحبانِ فن کے ہاتھوں ارتقا کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے”سانگ اور پوٹھوہاری شعر خوانی تک پہنچی شعر خوانوں اور اُن کی پارٹیوں نے محسوس کیا کہ اس فن کو مزید نکھارا جائے اُنھوں نے جدید عہد کے تقاضوں سے بیت بازی کو ہم آہنگ کرنے کی مشقت جاری رکھی ارتقاء کا یہ عمل جاری رہے گا,یہ زندگی کا حُسن ہے.بیت بازی کے موجودہ رنگ میں مختلف علاقوں کی موسیقی کے ملے جلے رنگ بھی شامل ہیں.(بعض اوقات تو مکمل طور پر غیر علاقائی فنکاروں کے گائے ہوئے گیتوں کی موسیقی کو کاپی کیا جاتا ہے) لیکن یہ یاد رہے کہ شعر خوانی میں ”ستار اور گھڑا”اولین ساز تھے ساز و آواز کے اس ارتقائی عمل میں گھڑے کے ساتھ کن تارہ,یا چھنکارہ,ہارمونیم,بانسری اور ڈھول تک شامل ہو چکے ہیں اس کے باوجود شعر خوانی میں گھڑا نواز کی ضرورت آج بھی وہی ہے جو قوالی کے ساتھ طبلے کی ہے سازندے گلوکار کو بام عروج تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتے ہیں پوٹھوہار کی فن شعرخوانی میں بیشمار اعلیٰ و معیاری سازندے گزرے اور موجود ہیں انہیں بے شمار سازندوں کے درمیان ایک نام محمد پرویز منگرال گھڑا نواز کا ہے محمد پرویز منگرال 01 جنوری 1965 ء کو فضل کریم کے گھر ڈھوک چھنی داخلی نندنہ منگرال نزد چوکپنڈوری پیدا ہوئے پانچ بھائیوں اور پانچ بہنوں میں محمد پرویز سے بڑے ایک بھائی ہیں باقی آپ سے چھوٹے ہیں گورنمنٹ ہائی سکول بھکڑال سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی پرویز منگرال کو بچپن سے ہی ادبی و ثقافتی ماحول میسر آیا پرویز منگرال کے چچا محمد بشیر نامور شعرخوان تھے اور سائیں برکت نوشاہی مرحوم کے شاگرد تھے اس طرح 1980 ء میں استاد گھڑا نواز قاصد کے شاگرد حاجی محمد جانس کی شاگردی اختیار کی دوسال کی ریاضت کے بعد 1982ء میں چوہدری اکرم گجر مرحوم کے ساتھ چار سالہ سنگت رہی بعد میں راجہ رزاق کیساتھ چھ سال زبیر قریشی کے ساتھ بارہ سال راجہ گلفام کے ساتھ چار سال راجہ ساجد محمود کے ساتھ آٹھ سال سنگت رہی جبکہ مجموعی طور پر ملک صدیق سمیت چالیس سال سے فن کی خدمت کررہے ہیں پرویز منگرال کا چھوٹا بھائی محمد جہانگیر صوفی آمین مرحوم کا شاگرد ہے اور 1990 ء سے گھڑا نوازی کررہاہے اس کے علاؤہ خاندان میں استاد عبدالرحمان مرحوم ستار نواز استاد محمد رمضان ستار نواز اور امجد پرویز گھڑا نواز شامل ہیں شادی اپنے خاندان میں 1995 ء کو ہوئی جس سے چار اولادیں تین بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی پیشہ کے لحاظ سے مزدور ہیں پسندیدہ شعراء میں مفکر پوٹھوہار محمد انور فراق قریشی ؒ خداداد دکھیاؒ بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ اور بندہ حقیر شامل ہیں شعرخوانوں میں راجہ رزاق مرحوم راجہ گلفام مرحوم اور راجہ ساجد محمود آف کاہلیاں پسند ہیں جبکہ دوستوں میں حاجی اظہر،اورنگزیب کلریاں چوہدری محمد نثار مرحوم موہڑہ حیال اور چوہدری محمد ظہیر مرحوم ٹیالہ اور نمبردار راجہ شوکت بھکڑال شامل ہیں دوران انٹرویو ایک شکایت تھی جو بے ساختہ ان کی زبان پر آ گئی اور وہ شکایت یہ تھی کہ میرے فن کو سراہا جانا چاہیے تھا لیکن سراہا نہیں گیا اپنی یادوں کوبیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بار ملک صدیق مرحوم ایک پروگرام کے سلسلے میں کراچی لے کر گئے اس کے علاؤہ نامور شعرخوانوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کیا لیکن کبھی کوئی بیرونِ ملک ساتھ لے کر نہیں گیا فنکار قوموں کا اثاثہ ہوتے ہیں ان کی قدر زندگی میں کی جانی چاہیے میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں کہ خراجِ عقیدت پیش کرنے سے لاکھ بہتر ہے کہ خراجِ تحسین پیش کیا جائے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے داد وصول کرنے کی تمنا رکھتا ہے ہمیں اپنے فنکاروں کو داد و تحسین پیش کرنا چاہیے
ایک سخن خراجِ تحسین بنام محمد پرویز منگرال
بیت بازی وچ گھڑا نواز سوہنا
اے استاد ہک اعلیٰ مثال والا
جھلک ماضی دی حال پوٹھوہار دا اے
مستقبل وچ فن دی چال والا
سلجھی گفتگو تے سوہنی سمجھ رکھے
چنگے خلق تے چنگے خیال والا
فخر چوکپنڈوری حقیر آکھے
پہائی پرویز جو چھنی منگرال والا

اپنا تبصرہ بھیجیں