122

گوجرخان میں تحریک انصاف کا فلاپ شو

قارئین کرام! پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ دو ممبران اسمبلی کا تعلق گوجرخان تحصیل سے ہے، پی پی 8 سے چوہدری جاوید کوثر جبکہ پی پی 9 سے چوہدری ساجد محمود اس وقت ایم پی اے ہیں، چوہدری محمد عظیم 2018 کا الیکشن راجہ پرویز اشرف سے ہار گئے تھے اور 96 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ انکے مدمقابل راجہ پرویز اشرف 1 لاکھ 25 ہزار ووٹ لے کر ایم این اے منتخب ہوئے تھے، تحریک انصاف کے دونوں ایم پی ایز نے بھی بالترتیب 48 ہزار اور 51 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے، الیکشن کے بعد ناقص پالیسیوں اور پیراشوٹرز کے رحم و کرم پر پارٹی کو چھوڑنے کی وجہ سے گوجرخان کے حلقہ NA58 اور پی پی 8 و 9 میں سے تقریباً ایک لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی تحریک انصاف کا گراف دن بدن نیچے جا رہا ہے، کوئی بھی موقع ہو ان کے ورکرز، ووٹرز سپورٹرز ان کا ساتھ نہیں دیتے، چند ماہ قبل عمران خان کی کال پر ہونے والے احتجاج کے دوران گوجرخان چوک میں سے موجودہ ایم پی اے کو پولیس والوں نے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور تھانے لے گئے، اور لفظ ”جاکت” سوشل میڈیا پر بہت مشہور ہوا۔آپ کو یاد ہو تو آزادی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے واضح الفاظ میں بتایا تھا کہ اس لانگ مارچ میں کارکردگی دکھانے والوں کو آئندہ الیکشن میں ٹکٹ دیئے جائیں گے اور ٹکٹ میں خود دوں گا، اس اعلان کے بعد ہر جگہ پر تنظیمات اور منتخب نمائندوں نے سر جوڑ لئے اور لانگ مارچ کے استقبال کو کامیاب بنانے کیلیے حکمت عملی مرتب کی
اس بار فائدہ یہ تھا کہ پنجاب میں حکومت ق لیگ اتحاد کیساتھ تحریک انصاف کی تھی اور تمام حکومتی مشینری کو استعمال میں لایا جا سکتا تھا، لہذا ہر شہر میں سرکاری ملازمین کو لانگ مارچ کے استقبال کیلیے انتظامات پر لگا دیا گیا۔قارئین کرام! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومتی مشینری کی مکمل سپورٹ اور بغیر کسی پریشانی کے گوجرخان شہر میں انسانوں کا سیلاب اُمڈ آتا مگر ایسا نہ ہوا اور 3 سے 4 ہزار کارکن، ووٹر، سپورٹر گوجرخان میں جمع ہو سکے جن کو تحریک انصاف 15/20 ہزار اور سوشل میڈیائی انقلابی اس سے بھی زائد بتا رہے ہیں۔گوجرخان میں لانگ مارچ کے استقبال کے دوران لگائے گئے سٹیج پر مقامی رہنماوں کی کثیر تعداد موجود تھی اور ہر ایک اپنی نمائش کرنے کی کوشش میں مصروف تھا، پوز بنا بنا کر فوٹو بنوائے گئے مگر انکا جو اصل کام ”بندے لانے” کا تھا وہ انہوں نے نہیں کیا، ممبران صوبائی اسمبلی بھی کارکنوں، ووٹرز سپورٹرز کو ساتھ نہیں لا سکے بلکہ چند گاڑیوں کا قافلہ لے کر جلسہ گاہ پہنچے اور نعروں میں انکا استقبال کیا گیا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی نظریاتی کارکن ان سے نالاں رہے، تحریک انصاف کی درجن بھر خواتین عہدیداران بھی بن سنور کر پنڈال میں پہنچیں تاہم اپنے ساتھ دیگر خواتین اور ورکرز کو لانا بھول گئیں اور کیمروں کے سامنے آزادی مارچ کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کرتی رہیں حالانکہ انکے کہنے پہ گھر والے بھی تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیں گے۔عمران خان کے نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے تحریک انصاف کو جوائن کرنے والی معروف سماجی و کاروباری شخصیت فرخ سیال نے پی ٹی آئی کا حقیقی رہنما ہونے کا حق ادا کیا، فرخ سیال یونین کونسل بھڈانہ کے وائس چیئرمین رہ چکے ہیں اور اپنے علاقے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں، انہوں نے جنڈنجار سے ایک ریلی لانے کا اعلان کر رکھا تھا اور بمطابق اعلان وہ موٹرسائیکلوں، گاڑیوں اور اونٹوں پر مشتمل بڑی ریلی لے کر پنڈال تک پہنچے، اس کے علاوہ انہوں نے 5 ہزار شرکائے جلسہ کیلیے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا جو ڈبوں میں پیک ہو کر پنڈال تک پہنچایا گیا اور پولیس ملازمین، میڈیا کی گاڑیوں اور شرکائے جلسہ میں تقسیم کیا گیا، فرخ سیال نے بغیر کسی عوامی عہدے کے وہ کام کیا جو عوامی عہدہ رکھنے والوں کو کرنا چاہیے تھا مگر عوامی عہدیدار صرف فوٹو سیشن کیلیے پیش پیش ہوتے ہیں۔میری نظر میں پاکستان تحریک انصاف کا گوجرخان میں شو بری طرح فلاپ رہا اور اسکی بڑی وجہ پیراشوٹرز کا پیش پیش ہونا اور نظریاتی ورکرز کو نظرانداز کرنا ہے باخبر ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی مقامی رہنماوں پر برہم بھی ہوئے کہ اگر بندے اکٹھے نہیں کر سکتے تھے تو یہاں عمران خان کا خطاب کرانے کی کیا ضرورت تھی۔۔ جمعہ کے روز ہی اسد عمر کی زیرقیادت لانگ مارچ چکوال پہنچا تھا جہاں پر میڈیا رپورٹس کے مطابق عوام کا جم غفیر تھا اور میڈیا پر بھی چکوال کو زیادہ اہمیت دی گئی۔لاہور سے کوریج کیلیے میڈیا کی گاڑیاں مارچ کے ساتھ ساتھ گوجرخان تک پہنچیں، وہاں ایک نجی چینل رپورٹر سے تعارف ہوا تو باتوں باتوں میں راقم نے ان سے پوچھا کہ لاہور سے یہاں تک سب شہروں کے استقبال آپ نے دیکھے ہیں، گوجرخان کے استقبال و جلسہ کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟؟ تو وہ کہنے لگے کہ پچھلے شہروں کی نسبت یہ مجمع تو کچھ بھی نہیں ہے اور راجہ پرویز اشرف جیسے حریف کا حلقہ ہو تو یہاں عوام کا سمندر ہونا چاہیے تھا، میں نے یہاں کے حالات دیکھ کر یہی اندازہ لگایا ہے کہ آئندہ بھی تحریک انصاف یہاں سے الیکشن نہیں جیت سکے گی۔۔ (اب یہ اس شخص کے خیالات ہیں جو اس لانگ مارچ کیساتھ کئی دن و راتوں سے چل رہا ہے)قارئین کرام! کسی بھی پارٹی کو منظم رکھنے کیلیے نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دینا بہت ضروری ہوتا ہے، کسی ایونٹ کو کامیاب کرنے کیلیے ورکرز کے فوٹو لگا کر مطلب نکلوانا اور بات ہے اور ہمہ وقت ان کیساتھ رابطے میں رہنا اور بات ہے میری دانست کے مطابق تحریک انصاف آمدہ الیکشن میں گوجرخان کی نشستیں کھو چکی ہے اور موجودہ ممبران اسمبلی و امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی یہ سوچنا بھی چھوڑ دیں کہ گزشتہ روز کے فلاپ شو کے بعد عمران خان ان کو ٹکٹ دے گا۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں