تحریرچوہدری محمد اشفاق نتھیا شریف
پی پی پانچ میں سیاسی گہما گہمی شروع امیدواروں نے اپنی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے سال 2012 ختم ہونیوالا ہے۔ 2013 کو انتخابات کا سال کہا جا رہا ہے اور حالات وواقعات سے لگ بھی ایسا ہی رہا ہے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا نظر آرہا ہے کہ ایک جمہوری حکومت اپنے 5 سال پورے کرنے کے بعد اقتدار کسی دوسری منتخب حکومت کو حوالے کریگی یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہوگا پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے بہت مشکلات پیدا ہوئیں لیکن پا رٹی کی بہترین حکمت عملی کیوجہ سے وہ ان میں نبردآزما ہوئے 2013شروع ہوئے ہی انتخابی مہم بھی زورو شور سے شروع ہو جائے گیا اور امیدوار ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دیں گئے جسطرح پورے ملک میں انتخابات کی آواز سنائی دے رہی ہے اسی طرح NA52 اور پی پی 5میں بھی سیاسی میدان کافی حد تک سج چکا ہے سوائے جماعت اسلامی اور مسلم لیگ جن کے صرف ایم این اے کنفرم ہوچکے ہیں
ایم پی اے کا اعلان کرنا ابھی باقی ہے ق لیگ پیپلز پارٹی کی طرف سے ابھی تک کسی بھی امیدوار کو کنفرم نہیں کیا گیا ہے باقی پارٹیوں کے علاوہ حلقہ کی عوام کی نظریں زیادہ تر مسلم لیگ ن پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کسی امیدوار کو ٹکٹ سے نوازتی ہے موجود ایم پی اے قمرالسلام کیخلاف بھی مہم شروع ہوچکی اگر چہ انہوں نے اس مسئلہ کے سیریز نہیں لیا اور وہ اس مہم کو اپنی خلاف محاذ نہیں سمجھ رہے محمود شوکت بھی سابق ایم پی اے جنہوں نے بہت عرصہ سے خاموشی اختیار کیے رکھی اور پارٹی ڈسپلن کو کبھی بھی ہاتھوں سے نہ جانے دیا بھی اب باقاعدہ طور پر میدان عمل میں کو د چکے ہیں اور پارٹی کی طرف سے ان کو مسترد کرنا بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ شوکت بھی عوامی حلقوں میں بہت زیادہ ہیں وہ اپنی پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا سہارا بنے وہ پارٹی کے علاوہ بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں انہوں نے ق لیگ کی طرف سے ایسے وقت میں الیکشن جیتا جب ق لیگ کا نام بہت بد نام ہوچکا تھا مسلم لیگ ن ان کو کسی طرح سے ضائع کرنا نہیں چاہتی اب انتظار اس بات کا کرنا ہوگا کہ ن لیگ کس حکمت عملی کے تحت اپنا فیصلہ کرتی ہے قمرالسلام راجہ ان دنوں کچھ تھوڑی تنقید کی زد میں بھی ہیں وجہ چوک پنڈوری اور شاہ باغ کے دکاندار وں کا ساتھ نہ دینا ہے
لیکن یہ ان کی اپنی ایک مجبوری بھی ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی ابھی تک اس حلقہ کے نہ تو قومی اور نہ صوبائی حلقہ کے کسی امیدوار کو سامنے لا سکی ہے شاید اس کیوجہ سے مسلم لیگ ن ہے کیونکہ جب تک ن لیگ اپنے امیدواروں کو فائنل نہیں کرتی اس وقت تک پیپلز پارٹی بھی خاموش رہے گی لیکن پھر بھی ایم این اے کا تو کوئی بھی امیدوار سامنے نظر نہیں آرہا ہے مگر صوبائی اسمبلی کے دو امیدوار بیرسٹر ظفر اقبال اور اعجاز بٹ سامنے آچکے ہیں بیرسٹر ظفر اقبال خاصی تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ان سے متعلق تحفظات ہیں کہ بیرسٹر صاحب صرف الیکشن کے وقت تشریف لاتے ہیں باقی تمام عرصہ ملک سے باہر گزرتے ہیں اور عوام تو دور کی بات پارٹی کے کارکنوں کی خوشیوں غمیوں میں بھی شریک نہیں ہوتے لہذا پیپلز پارٹی کے کارکن ان کو کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں اعجاز بٹ جو ساری زندگی پیپلز پارٹی سے وفاداری بناتے رہے بس اب اپنی وفاداریوں کا صلہ مانگنے کیلئے باقاعدہ طور پر امیدوار ہونے کااعلان کر چکے ہیں
اگرچہ ان کو پورے PP5سے پذیزائی حاصل نہیں ہے اس کے باوجود وہ میدان میں کو د پڑے ہیں پیپلز پارٹی کیلئے بھی فیصلہ کافی مشکل ہوگا جماعت اسلامی کے امیدوار برائے ایم این اے خالد محمود مرزا بھی اپنی سیاسی مہم شروع کر چکے ہیں اور باقاعدہ طور پر میٹنگ شروع کر دی ہیں فی الحال تو زیادہ چوہدری نثار علی خان کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جماعت اسلامی کیطرف سے بھی MPA کا اعلان کرنا ابھی باقی ہے تحریک انصاف جس کا شور وغصہ پورے ملک میں پھیل گیا ہے اب تک اس حلقہ سے ایم این اے کا اعلان نہیں لیا البتہ صوبائی حلقہ سے ہارون ہاشمی بھی امیدوار لگتے ہیں ح تحریک انصاف بھی اس حلقہ میں اپنا کافی حد تک مقام پیدا کر چکی ہے مہاجر قومی موومنٹ نے بھی اس حلقہ میں اپنے امیدوار کھڑے کر نے کا اعلان کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں شعیب کیانی PP5سے امیدوار کے طور پر سامنے آ گئے ہیں اور مہم بھی چلانی شروع کردی ہے تحریک استقلال بھی یقیناًاپنے امیدوار کھڑے کریگی اس کے ساتھ ساتھ کئی آزاد امیدوار بھی متوقع ہیں جن میں پیر سید اسماعیل شاہ صاحب باقاعدہ طور اعلان کر چکے ہیں اور گاوں پنڈ سے الیکشن مہم کا آغاز بھی کر چکے ہیں تمام امیدواروں کی کوششیں اپنی جگہ لیکن اصل پنجہ آزمائی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی ہوگئی ۔