کرپشن /محمد حسین

قائداعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ کرپشن ایک لعنت ہے ہندوستان میں مگر خاص طور پر نام نہاد مسلمانوں اور دانشوروں میں زیادہ ہے بلا شک و شبہ یہ وہ طبقہ ہے جو مفاد پرستی ،اخلاقی اور فکری سطح پر بد عنوانی کا مرتکب ہے حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے مخلص قائدین کو چھوڑ کر جس

طبقے نے اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لیا ان میں سیاستدان ،بیوروکریٹ ،صحافی ،دانشور،مقتدر فوجی جرنیل سبھی شامل ہیں بظاہر اسلام کا نام استعمال کیا گیا دستور اور قانون میں اس کا زکر کیا گیا تاکہ عوام کو دھوکہ دیا جا سکے لیکن عملاََ تمام ہی پالیسیاں ذاتی مفادات ،علاقائی تعصبات ،صوبائی لوٹ مار اور مغربی ممالک کے اشاروں پر بنائی گئیں ۔
کرپشن بنیادی طور پر ایک اخلاقی مسلہ ہے مسلے کی بنیاد ذاتی اخلاقیات میں ہے اور کرپشن کی جڑ انسان کی نفس میں ہے کرپشن کا تصور اداروں کے داخلی ڈھانچے اور نظام کا ر میں پائی جانے والی کمزوریوں سے جڑا ہوا ہے ،اس میں معاشرے کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لیکر ریاست کے پورے نظام تک ملوث نظر آتے ہیں ۔کرپشن کی تمام وسعتوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے جلو میں ہجرت اور انتقال آبادی کی وجہ سے املاک اور کاروبار پر قبضے کے باب میں جو طرز عمل اختیار کیا گیا اس نے کرپشن کیلئے پہلا میدان کھولا اور ایک بڑی اور با اثر لوگوں کی تعداد نے ناجائز قبضہ اور غلط کلیم کا رستہ اختیار کیا

بیورو کریسی نے بھی اپنے ہاتھ رنگے اور اس طرح کرپشن کا ایک بڑا میدان کھل گیا پھر بیرونی امداد کے جلو میں کرپشن کا ایک بڑا طوفان امڈنا شروع ہوا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے صوبوں کے درمیان فوج اور سول محکموں میں وسائل کی تقسیم کے میدان بھی کرپشن ،ناانصافی اور اقرباء پروری کی آماجگاہ بن گئے۔کرپشن کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جس کوحکومت پالیسی کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہے اس میں پارلیمنٹ کے ارکان ،بیوروکریسی ،ججوں ،جرنیلوں اور صحافیوں کو لائسنس ترقیاتی کوٹے ،زمین کے پلاٹ ،ملک اور ملک سے باہر سفر ،علاج کی مفت سہولتیں اور کیا کیا عنایات دی جاتی ہیں جن سے ان کو سرفراز کیا جاتا ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔کرپشن کے سلسلے میں سیاستدان اولین ہدف دکھائی دیتے ہیں اور ان کا دامن اتنا داغ دار پیش کیا جا رہا ہے کہ سیاست گالی بنتی جا رہی ہے عام طور پر کرپشن کو مالی بے ظابطگی اور خرد برد کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے

لیکن یہ لفظ حق و انصاف وفاداری ،دیانت و امانت اور حسن اخلاق کی ضد ہے کرپشن انسانی روح اور تہذیب و شرافت کے خلاف بھی گھناؤنا جرم ہے اس سے معاشرے میں فساد اور ظلم فروغ پاتا ہے دولت کی عدم مساوات کو فروغ حاصل ہو تا ہے قائداعظم ؒ نے ریاست کے وسائل کو اپنی ذات کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا زندگی کے آخری ایام میں جب وہ شدید علیل تھے تو ان کے افقاء نے اصرار کیا کہ علاج کیلئے وہ انگلستان یا امریکہ تشریف لا جائیں یا وہاں سے ڈاکٹر بلانے کی اجازت دے دیں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرا ملک اس کا متعمل نہیں ہو سکتا نواب زادہ لیاقت علی خان کے سامنے ایک فائل پیش کی گئی کہ مشرقی پنجاب میں ان کی جو جاگیر رہ گئی ہے اس کے عوض کراچی اور سندھ میں زمینیں الاٹ کرا لیں

تو لیاقت علی خان نے فائل سیکرٹری کے منہ پر پھینک کر کہا آؤ میرے ساتھ ان آبادیوں کو دیکھو جہاں پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنے والے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں 1951میں جب لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تو ان کے اکاؤنٹ میں کل سینتالیس ہزار روپے تھے اور کوئی جائیداد پاکستان میں نہیں تھی پاکستان کے بانیوں کا یہ طرز عمل تھا اور آج کے حکمرانوں کا کیا حال ہے ۔
؂ہمارے ملک میں کرپشن مختلف شکلوں میں موجود ہے حتیٰ کہ محکمہ حج و اوقاف ،تعلیم و صحت ،عمر رسیدہ انسانوں کے فنڈ ،غریبوں اور محتاجوں کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں بھی کرپشن کی جاتی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ سانحہ ہم پر کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے ہمارے ملک کو فقرو فاقہ ،بے روزگاری ،جہالت ،بیروزگاری اور بے سرو سامانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کرپشن صرف رشوت کا نام نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو جب کو ئی اختیار دیا گیا ہو اور وہ اس اختیار کا کسی پہلو سے غلط استعمال کرے تو وہ کرپشن کہلاتا ہے امانت و انصاف اور حقوق کی پاسداری زاتی پسند و ناپسند کی روشنی میں سرکاری اختیارات کا استعمال یہ سب کرپشن کی بد ترین شکلیں ہیں

اس کے روک تھام کے لئے سب سے پہلی ضرورت حلال اور حرام کا دراک ہے ایک طرف ہر فرد کی اخلاقی تربیت اور گناہ اور ثواب کے احساس اور آخرت کی جواب دہی کی زندگی کو موثر بنانا اور دوسری طرف قانون ،ضابطے اور فیصلے کے طریقوں اور کارکردگی کے جائزے کا ایسا واضع اور شفاف نظام بروئے کار لانا کہ جس سے کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے امکانات کو کم سے کم کر دیا جائے اس سلسلے میں سب سے اہم چیز اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اجتماعی زندگی میں احتساب کا موثر بندوبست ،افراد کی اجا رہ داری اور خود اختیاری کو کم سے کم کرنا اشد ضروری ہے ۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں