کتاب بینی

تحریر۔شہزاد رضا
آج سے 15یا 20سال قبل لوگ کتاب پڑھنے کے لیے ایک دن منتخب کر رکھا کرتے تھے اور اس دن وہ سب مل بیٹھتے اور کوئی ایک

کتاب پڑھتااور باقی لوگ خاموشی سے بیٹھ کے اس کو سنا کرتے اسی طرح طالب علم جو کہ سکولوں میں پڑھنے جایا کرتے تھے وہ بھی اسی طرح دن کوئی ایک دن منتخب کر رکھتے اور اس دن اکٹھے مل جل کر پڑھتے لیکن آہستہ آہستہ یہ رواج مانند پڑھتا گیا وقت گزرتا چلا گیا اور آج سے پانچ یا دس ساقبل تک کی اگر ہم بات کریں تو اس وقت بھی بڑی عمر کے لوگ گھروں میں فارغ ہونے کی وجہ سے کتابوں میں ہی زائد وقت گزارا کرتے اور کتابوں میں خوصی دلچسبی لیا کرتے اور ان کا مطالعہ کیا کرتے تھے مگر ان دو تین سالوں میں تبدیلی کی ایک ایسی لہر آئی کہ جس نے سب کچھ یکسربدل کر رکھ دیا لو گ کتاب سے دور ہوتے چلے گئے اس بات کی بھی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک طرف الیکٹرانک میڈیا دنیا پر تیزی سے راج کرتا چلا جار ہا تھا نت نئے جدید طریقے انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے سامنے آتے گئے جن میں سب سے پہلے ریڈیو جس کو اب لوگ کم ہی سنتے ہیں لیکن چند سال پہلے تک تو انفارمیشن کا ایک بڑا ذریعہ سمجھ کر اس کو سنا جاتا تھا لیکن اب ریڈیوکی نشریات کو بھی لو گ کم ہی سننے لگے ہیں جس کی بڑی وجہ شاید الیکٹرانک میڈیا میں ایک بڑی تبدیلی جو کہ پچھلے چند سالوں میں ٹی وی کے آنے سے بھی کتاب کے مطالعے میں کمی آئی کیونکہ لوگ آرام سے بیٹھ کر کتا ب کو پڑھنے کے بجائے ٹی وی کو ہی دیکھنے لگے کیونکہ اس میں تصویربھی دکھائی دیتی تھی ریڈیو پر تو صرف آواز ہی آتی ہے ٹی وی کے آنے سے ریڈیو کی مقبولیت میں بھی کمی آئی اور لوگ زیادہ تر ٹی وی پر ہی انحصار کرنے لگے پھر اس کے بعد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر نکال دی کیونکہ لوگوں کو نت نئی انفارمیشن انٹرنیٹ سے ملنے لگی اور لوگ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے میں دلچسبی کا اظہار بھی کرنے لگے اور اس کے استعمال میں آئے روز اضافہ بھی ہونے لگااور یہی وجہ ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد ان گنت ہے پرنٹ میڈیا نے بھی اس سلسلے میں کافی نمایاں رہا اور لوگوں کی توجہ پچھلے چند برسوں میں اخبارات کی طرف آئی اور لوگ اخبارات کو بھی پڑھنے لگے لیکن جو بھی ہو جیسے بھی ہو آخر یہ سوال دماغ کی کھڑکی کو دستک دیتا ہے کہ کیا کتاب زوال کا شکار ہو گئی ؟ہماری لائبریریاں سنسان پڑی ہیں اور کتاب پڑھنے کا وقت ہمارے پاس نہیں رہا تو وہ کتابیں پھر کس لیے لکھی گئیں کتاب کو لکھنے والوں نے تو اپنی زندگی کے تجربات مشاہدا ت اور تجزیے کر کے لکھی خیر ہم نے تو اس کتاب کو بھی بھلا دیا اور آئی ہی خاص الخاص انسانیت کی بھلائی کے لیے تھی جس میں حق کے علاوہ کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہم نے تو اس کو بھی ایک خوبصورت غلاف کے اندر بند کر کے رکھا ہے تو ہم باقی کتابوں کا کیا مطالعہ کریں ایک سوال تو یہ بھی بنتا ہے شاید انسان کو ذلیل و رسوا بھی آج اسی لیے ہونا پڑھ رہا ہے کیایہ کتاب الماریوں کے اندر سجانے کے لیے ہی رہ گئی تھی ؟نوجوانوں میں ناول کچھ عرصہ قبل بہت مقبول ہوئے اور دھیرے دھیرے ان کی مقبولیت میں بھی کمی آگئی علامہ اقبالؓ نے کہا تھاکہ
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ توُ
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
کتابوں کے اندر موتیوں کی طرح اپنی تحریروں کو سجانے والے بھی کوئی عام انسان نہیں تھے نامور ادیب اور شعراء جن میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؓ، حضرت داتاگنج بخشؓ ، حضرت بہاؤالدین ذکریاؓ ، ٖفیض احمد فیض جیسی ہستیاں خداداد صلاحیتو ں کے مالک جنہوں نے ادب کی تعمیر میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور یہ ادب ان لوگوں نے کتابوں کے ذریعے ہی ہر خاص و عام تک پہنچایااور آج ادب صرف اور صرف ان لوگوں کی وجہ سے زندہ ہے ۔ ہم نے اپنی تاریخ کو بھلا دیا ہے اگر تاریخ کو نہ بھولتے تو شاید آج یہ حال نہ ہوتا ۔کتابوں کا مطالعہ اور ان میں لکھی گئی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بھی اپنی معاشرے اصلاح ہو سکتی ہے

 

اپنا تبصرہ بھیجیں