192

کالا باغ ڈیم پاکستان کی لائف لائن

قیام پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک پاکستانی ریاست کی بھاگ دوڑ ایسے لیڈروں کے ہاتھ چلی گئی جن کا ویژن کچھ اور ہے اور منزل کچھ اور قیام پاکستان کے بعد جو انتخابات منعقد ہوئے ان میں زیادہ تر لوگوں کو ووٹ کے استعمال کا پتا نہیں تھا جہاں کسی قبیلے کے سردار نے اعلان کر دیا کہ فلاں کو ووٹ ڈال دیے جائیں بس سب کے ووٹ اس کو ڈال دیے جاتے تھے اور زیادہ تر ذات برادری کا ووٹ ہوتا تھا اس وقت سیاست صرف کچھ بااثر لوگوں تک محدود تھی اور جو بھی منتخب حکومت ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور یہ ملک کھبی مارشلا اور کھبی جمہوری اور صدراتی نظام کے تجربات میں اٹکا رہا غرضیکہ جو کوئی بھی آتا اپنے نظام کو درست اور اس سے پہلے کے خلاف باتیں کرتا یوں وقت کٹتے کٹتے پاکستان کو ستر سال ہونے کو آئے ہیں دوسرے لفضوں میں ہم نے اپنے ملک کے ستر سال صرف تجربوں میں ضائع کر دیے عوام اس وقت بھی مظلوم تھی اور آج بھی یوں لگتا ہے کہ وہ سفر جو پاکستان بننے سے شروع ہوا ہے آج بھی وہاں پر ہی رکا ہوا ہے ان پینسٹھ سالوں میں عوام پاکستان کہاں کھڑے ہیں ان کی کیا پوزیشن ہے اور اگر ان کی پوزیشن اچھی نہیں ہے تو اس کے کون سے عوامل ہیں؟ جو کہ ان کو اسی پوزیشن پر روکے ہوئے ہیں ؟کیونکہ ارضیاتی سروے کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس وہ تما م وسائل موجود ہیں جو کہ دنیا کے بہت کم ممالک کے پاس ہیں بڑے بڑے دریا ء زرخیز میدان پہاڑوں میں چھپے خزانے وسیع و عریض سحرا پاکستان دنیا کے ایک بہت ہی اہم خطے میں واقع ہے اور اس کا حدود دربہ ایسا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے جو کہ پاکستان کی اہمیت اور اس کی افادیت کو ظاہر کرتا ہے پاکستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں کا کم اور نزدیک ترین سفر اور وسطء ایشیائی ریاستوں کی بڑی منڈی پاکستان سے ایران اور ترکی اور بعد ازاں یورپ تک کے آسان راستے پاکستان سے چائینہ اور بعد ازاں روس تک کے راستے وہ عوام ہیں جن پر بیرونی دنیا کی نظریں ہیں اور یہ وہ مواقع ہیں کہ اگر پاکستان کو ان سے استفادہ کرنے کا موقع مل جائے تو پاکستان دنیا کے ناصرف ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشاء کا ٹائیگر بھی بن سکتا ہے اور خطے کے دوسرے ممالک مثلا بھارت ،ملائیشیا،اور انڈونیشیاء کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے پاکستان کو جو محلے وقوع ملا ہے امریکہ، روس، چین اور دنیا کے تمام بڑے ملکوں کو اس کی ضرورت ہمیشہ سے ہی ہے پاکستان کو اگر صرف اور صرف اچھے لیڈر مل جائیں تو اس کو ترقی کے وہ منازل جو دوسرے ملک صدیوں میں حاصل کرتے ہیں صرف چند سالوں میں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو جائے صرف ضرورت ہے تو اچھے لیڈروں کی اس کے علاوہ پاکستان کی معاشی پالسیوں اور خارجہ پالیسوں کو دیگر امیر ملکوں سے آزاد کرانے سے بھی اس کی وہ حثیت بحال کی جا سکتی ہے جو ہونی چاہیے آج ہمیں حکومت نظر تو آتی ہے لیکن اس کی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آتی ایک سازش کے تحت اس کے اداروں جن میں پاکستان سٹیل مل ،پاکستان ریلوے ،پاکستان ائیر لائن ، غرضیکہ کوئی بھی نفع بخش ادارہ ہو اس کو کھوکھلا کر کے اونے پونے داموں فرخت کرنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہے اور پاکستان کے وہ اثاثے جن کی وجہ سے یہ دنیا کی سب سے پڑی معیشت بن سکتا ہے اس کو نا م نہاد سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مکمل نہیں ہونے دے رہیں اور بہت سے ملکی افادیت کے منصوبوں میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں مثال کے طور پر کالا باغ ڈیم جس کو موجودہ حکومت نے آتے ہی سرد خانے میں ڈال دیا اور پوری پاکستانی قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیاکالا باغ ڈیم تو پاکستان کی لائف لائن ہے آج پوری قوم بجلی کے بحران کا سامنا کر رہی ہے مگر کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے اس کو ضرور بننا چاہیے ہر کوئی کسی نہ کسی سیاسی مصلحت کا شکار نظر آتا ہے کالا باغ ڈیم منصوبے کو ختم کرنے پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں منائی گئی کیونکہ بھارت کھبی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کوئی عوامی افادیت اور خاص طور پر آبی منصوبہ مکمل ہو۔بھارت پاکستان میں تعمیر ہونے والے ڈیموں کو روکنے کے لئے اربوں روپے ان لوگوں میں بانٹ رہا ہے جو کہ ان منصوبوں کی تعمیر میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں جس کی بڑی مثال حال ہی میں بھارت کا عالمی عدالت میں مقدمے کی جیت ہے جس میں ہم میں ہی سے کچھ لوگوں نے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کیا ہو گا ورنہ تو بھارت کوپاکستانی پانی پر شب خون مارنے کی جرات نہ تھی۔ ہمارے حکمرانوں جب لوڈشیڈنگ کا عذاب سر پر آیا تو نعرہ لگا دیا کہ ہمیں تو ورثہ میں ملا ہے اور اس لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے ایسے کھوکھلے منصوبے ترتیب دیے گئے جن میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ تھا جن کا بعد ازاں پتا چلنے پر تمام منصوبے روک دیے گئے کیونکہ ان میں کرپشن کے تاریخی ریکارڈ قائم ہو چکے تھے جو حکمران قوم کے اربوں کھربوں کھا گئے ان سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ قوم کے مفاد کے منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچنے دیں گئے اس کے لیے پاکستان کے عوام کو کردار ادا کرنا ہو گا ان کو ان لیڈروں کو منتخب کرنا ہو گا جو کہ پاکستان کی خاطر سوچتے ہیں اور ایک نہ ایک دن وہ پاکستان کی عوام کو ان بحرانوں سے نکال لیں اور اس کے لیے اگر کوئی سب سے آسان اور سستا منصوبہ ہے تو وہ کالا باغ ڈیم ہیں جو کہ نام نہاد محب وطن لیڈروں کی وجہ سے رکا ہوا ہے جس پر بہت کم سرمایے اور بہت کم وقت میں پایا تکمیل تک پہنچایاجاسکتا ہے جس پر آدھا کام مکمل ہے سائیڈ اتنی آئیڈیل ہے کہ کم خرچ میں منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے جس سے معیشت کا پہیہ بھر سے رواں دواں ہو سکتا ہے اور یہ پستی میں جانے والی قوم پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کے قابل ہو سکتی ہے بات ہے صرف محب وطن قیادت کی بات ہے صرف محب وطن سوچ کی بات ہے اس کے لیے عوام کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ فیصلے کا وقت بہت قریب آچکا ہے اور اب کی بار بھی اگر دیر ہو گئی تو پھر خدانخواستہ بہت دیر ہو جائے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں