334

پریس کلب کلرسیداں کے پہلے انتخابات

پریس کلب کلرسیداں کے پہلے انتخابات میں جنرل سیکرٹری کی نشست پر کامیابی پنڈی پوسٹ کا مقدر ٹھہری،اس سے قبل ہر سال انتخابات کے نام پر عہدوں کی بندر بانٹ کر دی جاتی تھی اور جمہوری طریقہ انتخاب سے گریز کیا جاتا رہا یہی وجہ ہے کہ کلرسیداں میں صحافت کے شعبہ کو اپنانے کے خواہشمندوں کو اُتنے مواقع میسر نہ آسکے جتنے آنے چاہیے تھے جن معاشروں میں جمہوریت کو نہ پنپنے دیا جائے وہاں صلاحیتوں کا سرعام قتل ہوتا ہے وہاں نئے لوگوں کو مواقع میسر نہیں آتے صلاحیتوں سے مالا مال افراد وہ خوبیاں اپنے اندر ہی لیے دُنیا سے چلے جاتے ہیں اور ان سے معاشرے کے دیگر افراد استفادہ حاصل نہیں کرپاتے۔ کلرسیداں شہر نے گزشتہ دو دہائیوں میں جس تیزی سے ہر شعبہ میں ترقی کی منازل طے کی ہیں وہیں پر صحافتی پلیٹ فارم کا قیام نہ ہونا باعث افسوس ہے کیونکہ یہ بات تو اٹل ہے کہ بہترین ادارے ہی معاشرے کو بہترین اور باکمال افراد فراہم کرتے ہیں جو معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں کو درست کرنے میں اپنے پیشہ وارانہ کردار کے مطابق سعی کرتے رہتے ہیں بدقسمتی سے کسی غیر متنازعہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا ہی صحافت کے خواہشمندوں اور قلمکاروں کی راہ میں اِک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ستر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات میں پریس کلب کلرسیداں کی جنرل َسیکرٹری کی نشست پر پولنگ کے لیے 23 مارچ یوم پاکستان کے دن کا انتخاب کیا گیا تھا سال 22۔ 2021 کے لیے جنرل سیکرٹری کا انتخاب ہونا باقی تھا دیگر عہدوں پر آپسی مشاورت اور اتفاق رائے سے عہدے تقسیم ہو چکے تھے صدر کی نشست پر ثاقب شبیر شانی اور مرزا عتیق الرحمن نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے مگر عین آخری وقت پر مرزا عتیق الرحمن نے کاغذات واپس لے کر صدارت کا قرعہ ثاقب شبیر شانی کے نام نکال دیا اسی طرح سیکرٹری اطلاعات یاسر یاسین ملک اور سیکرٹری فنانس کے لیے فیصل دلنواز بلا مقابلہ منتخب ہوئے جبکہ جنرل سیکرٹری کی نشست پر پرویز اقبال وکی اور شہباز رشید چوہدری کے درمیان مقابلہ تھا جو شہباز رشید چوہدری نے بآسانی 8 ووٹ لے کر اپنے نام کر لیا اور پرویز اقبال وکی کو 6 ووٹ ملے۔ووٹنگ کا عمل سینئر ممبران پریس کلب کی زیر نگرانی مکمل ہوا بعد ازاں متفقہ طور پر پرویز اقبال وکی کو سینئر نائب صدر بنادیا گیا۔پنڈی پوسٹ کے بانی کرداروں کا نام لیا جائے تو شہباز رشید چوہدری کا نام بھی اس فہرست میں آتا ہے انھوں نے اس پودے کی آبیاری میں کماحقہ اپنا حصہ ڈالا اور وہ اپنے محسن دوست عبدالخطیب چوہدری کی زیر قیادت کام بھی کرتے رہے اس کے ساتھ وہ بیک وقت قومی اخبارات کے ساتھ بھی منسلک رہے پریس کلب کلرسیداں کا پہلا انتخابی معرکہ پنڈی پوسٹ کے نام رہا جو پنڈی پوسٹ کی ٹیم میں ایڈیٹر سے لے کر رپورٹر تک ہر فرد کے لیے باعث اعزاز ہے امید واثق ہے شہباز رشید چوہدری اپنی کوششوں کے نتیجے میں وہ تبدیلیاں ضرور لائیں گے جن کی اب تک اشد ضرورت تھی مگر ہو نہ سکیں۔نئی تنظیم میں اکثریت نوجوان خون شامل ہے جوشعبہ صحافت کے مکینوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں گزشتہ سال میں بھی صدر پریس کلب ثاقب شبیر شانی نے چند ایک ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں جس کی نظیر آج تک کی تاریخ میں نہیں ملتی تھی یقینا یہی چھوٹے چھوٹے اقدامات متوسط خاندانوں کے قلمکاروں کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف بنتے ہیں لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کوباقی ہے۔ دو ہفتے قبل ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ راولپنڈی ڈویژن تابندہ سلیم نے پہلے کلرسیداں اور بعدازاں پنڈی پوسٹ دفتر میں صحافیوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے پیشہ وارانہ امور پر تبادلہ خیال کیا تابندہ سلیم نے راولپنڈی کی دیگر تحصیلوں کا بھی دورہ کیا صحافیوں سے ملنے کا مقصد اُن سے مسائل دریافت کرنا تھا انھوں نے بتایا کہ حکومتی ادارے مقامی سطح پر صحافیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔اُمید کرتے ہیں پریس کلب کلرسیداں کی نئی تنظیم ایسی قانون سازی کرے گی اور ایسی تمام تر رکاوٹوں کو آئینی اور قانونی لحاظ سے دور کیا جائے گا جسے نئے لوگوں کو کام کرنے کے مواقع میسر آسکیں گے جسے مقامی سطح پر صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات اُٹھانے کے ساتھ ساتھ پریس کلب کی عمارت کے قیام کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں گے اگر تحصیل سطح پر دیگر اداروں کا قیام ہو سکتا ہے تو پریس کلب کی عمارت کیوں نہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں