والدین کی خدمت اورسینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کا مستحسن بل

ضیاءالرحمن ضیاء/سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بزرگ والدین کا خیال نہ رکھنے والے بچوں پر سزا اور جرمانہ مقرر کرنے سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے ۔ بل کے مطابق بوڑھے والدین اور بزرگوں کے حقوق کے لیے ویلفیئر کمیشن بنایا جائے گا اور اولڈ ایج ہومز تعمیر ہوں گے ۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک بہترین بل ہے جسے پیش کرنے اور منظور کرنے والے یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ اس بل کے مطابق بزرگ والدین کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والی اولاد کو تنبیہ کرنے کے لیے 25ہزار روپے جرمانہ اور ایک ماہ جیل کی سزا دی جائے گی ۔ والدین ایسی ہستیاں ہیں جن کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ۔ والدین کی اولاد کے ساتھ محبت ا تنے اخلاص اور بے غرضی پر مبنی ہوتی ہے کہ اس پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا۔ والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو انسان کے وجود کا ذریعہ بنتے ہیں اور وہی انسان کو ان مقامات تک پہنچاتے جہاں پہنچ کر وہ اترانے لگتا ہے اور اپنی محنت و قابلیت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ والدین کی محنتیں ، ان کی مشقتیں، ان کا پیار سب کچھ انہیں بھول جاتا ہے جس کی بدولت انسان دنیا میں کچھ بننے کے قابل ہوتا ہے ۔ والدین کی ساری زندگی اولاد کو راحت پہنچانے میں صرف ہو جاتی ہے ۔ ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اولاد کو دے دیتے ہیں ، وہ اولاد کے لیے حتی الوسع جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرتے ہیں ۔ اولاد کی خوشی کے لیے اپنی تمام خوشیاں قربان کر دیتے ہیں۔
لیکن جب یہی بچے جوان ہو جاتے ہیں اور والدین کی محنتوں کی بدولت پڑھ لکھ کر عہدے حاصل کر لیتے ہیں تو والدین کو جاہل اور گنوار سمجھنے لگتے ہیں۔ جب والدین ضعیف ہو جاتے ہیں اور انہیں اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت یہ اولاد انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے ۔ والدین کی خدمت کا موقع ملنے پر اللہ کا شکر ادا کر کے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جنت کے مستحق بننے کی بجائے انہیں خود پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی بیماری اور کمزوری میں ان کے پاس بیٹھ کر ان کا جی بہلانے کی بجائے انہیں تنہائی میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ ایسا وقت والدین کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ والدین ایسے کڑے وقت میں بھی اولاد کی بے رخی کے باوجود ان کے حق میں دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔ وہ ان سے اپنی خدمت کا مطالبہ نہیں کرتے بس ان کی توجہ چاہتے ہیں ، وہ فقط اتنا چاہتے ہیں کہ بچے ان کے پاس آکر بیٹھیں اور ان سے تھوڑی سی گفتگو کر لیں۔ زیادہ دیر کے لیے نہیں تو کم از کم کچھ دیر کے لیے ہی آکر اپنی صورت دکھا جائیں تو ان کے دل کو ٹھنڈک مل جاتی ہے ۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں والدین کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا ہے ۔ بوڑھے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی
خصوصی طور پر تاکید کی گئی ہے ، ان کے سامنے اف تک کہنے سے منع فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ان کے سامنے عاجزی و انکساری کے ساتھ جھکے رہو اور ان کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے انتہائی نرم لہجے میں گفتگو کرو۔ ایسے ہی رسول اللہ ٬ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ یعنی اگر والدین راضی اور خوش ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ایسی اولاد سے خوش ہوتے ہیں اور اگر والدین ناراض ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے بندے سے ناراض ہوتے ہیں جس کے والدین اس سے راضی نہ ہوں۔ جب اللہ رب العزت ناراض ہو جاتے ہیں تو بندے کی ہلاکت و بربادی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ زندگی کی تمام خیرو برکات اٹھ جاتی ہیںاور سکون غارت ہو جاتا ہے ۔

کچھ ناخلف اور بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین سے جان چھڑانے کے لیے انہیں اولڈ ایج ہاوسز میں بے یارو مددگار چھوڑ آتے ہیں جہاں یہ ضعیف و ناتواں لوگ اپنے انہی پیارے بچوں کی بے وفائی کا دکھ سہتے سہتے زندگی کی گاڑی گھسیٹتے ہیں جن کے لیے دن رات محنت مشقت کرتے رہے اور جن کی جوانی کے بارے میں سوچ کر بڑے سہانے سپنے دیکھا کرتے تھے۔ آج جب وہ سپنے پورے ہونے کا وقت آیا تو وہی دل کے سہارے انہیں تنہا مرنے کے لیے اولڈ ایج ہاو¿سز کے سپرد کر دیتے ہیں۔ پھر کئی کیسز میں یہ بھی سنا گیا ہے کہ وہ مدتوں والدین کو چہرہ تک نہیں دکھاتے حتیٰ کہ عید کے دن بھی والدین اپنے بچوں کی راہیں تکتے رہ جاتے ہیں ۔ انہیں گھر لے کر جانا تو درکنار بچے ان سے ملاقات کے لیے بھی نہیں آتے۔ 

ایسے حالات میں اولاد کو بوڑھے والدین کی خدمت میں کوتاہی کرنے کے جرم میںسزا دینا ضروری ہے تاکہ انہیں کچھ نصیحت ہو اوروالدین کو جب سہارے کی ضرورت پڑے تو وہ صاحب اولاد ہونے کے باوجود بے یارو مددگار نہ رہ جائیں۔ اولڈ ایج ہاو¿سز ضرور بنانے چاہیئیں لیکن یہ فقط ان بزرگوں کے لیے ہوں جن کا کوئی وارث نہیں ہے یعنی جن کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی انہیں کوئی سہارا دینے والا ہو وہی لوگ اولڈ ایج ہاو¿سز میں قیام پذیر ہو سکیں ۔ اس کے برعکس جن بزرگوں کی اولاد ہو تو انہیں اولڈ ایج ہاو¿سز میں ہر گزداخلہ نہیں دینا چاہیے بلکہ ان کے بچوں کو بلا کر انہیں والدین کی خدمت کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ ان کے دلوںمیں خوف خدا پیدا ہو اور وہ والدین کی خدمت کریں لیکن اگر ترغیب سے کام نہ چلے تو پھر انہیں سزا دی جائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کو گھروں میں ہی رکھیں ان کی خدمت کریں اور ان کے اخراجات برداشت کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں