columns 89

مدرسہ علوم دینیات سے جامعہ بہاولپور تک

      1366 میں عرب سے آ کر سندھ میں آباد ہونے والے امیر سلطان احمد عباسی کو سندھ میں پہلے سے موجود عربوں نے اپنا سربراہ تسلیم کر لیا ان کی اولاد نے سندھ کے اکثر علاقوں پر ایک لمبا عرصہ حکومت کی بعد ازاں عباسی خاندان کے امیر چنی محمد خان عباسی کی وفات کے بعد عباسی خاندان دو قبیلوں میں بٹ گیا ایک کلہوڑا اور دوسرا داؤد پوترہ کہلوانے کلہوڑا امیر چنی محمد خان عباسی کے پوتے تھے جنہوں نے اپنے دادا کی وفات کے بعد حکومت پر قبضہ کر لیا اور اپنے چچا داؤد پوترا کو اپنی ریاست سے نکال دیا

یہ لوگ پھرتے پھرتے اچ شریف پہنچ گے جو اس وقت اس علاقے کا سب سے بڑا شہر تھا پیران اچ شریف کی سفارش پر ملتان کے امیر نے ان کو ایک جاگیر  دے دی پوترا قبیلے کے سردار بہادر خان عباسی دوم نے 1690 میں ریاست  بہاولپور کی بنیاد رکھی ( ریاست بہاولپور پنجاب کے جنوب مغرب اور سندھ کے شمال مشرق میں واقع ہے یہ ریاست تین سو میل لمبی اور پچاس میل چوڑی تھی یہ رحیم یار خان بھاونگر اور بہاولپور  یعنی موجودہ بہاولپور ڈویژن پر مشتمل تھی ) بعض مصنفین کے نزدیک نواب صادق محمد خان اول نے ریاست کی بنیاد 1723ء یا 1727 یا 1728 رکھی

نواب کو ابتدا میں بہت مشکلات برداشت کرنی پڑیں نادر شاہ درانی سے آپ کو نواب کا خطاب ملا تھا نواب بہاول خان اول نے 1748 میں بھاولپور شہر کو آباد کیا اسی لیے ان کے نام پر بہاولپور شہر کا نام رکھا گیا ریاست کا دارالحکومت بہاولپور  کو بنا دیا گیا اس سے قبل ریاست بہاولپور کا دارالحکومت دراوڑ یا ڈیراوڑ قلعہ تھا اس کی ریتلی  خشک اور بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے نہری نظام قائم کیا گیا اس کا شمار ھندوستان کی امیر ریاستوں میں ھوتا تھا

جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا ریزرو بینک آف انڈیا نے  پاکستان کے حصے کے 100 کروڑ روپے دینے سے انکار کردیا تو نواب آف بہاولپور نے11 کروڑ روپے نقد اور 12 ہزار ٹن گندم  قائداعظم کی خدمت میں پیش کی اس کے ساتھ ہی ریاستی فوج کو پاکستانی فوج میں ضم کر دیا گیا اسی طرح نواب آف بہاولپور نے پاکستان ایئر فورس کے جنگی طیاروں کی خرید کے لئے بلینک چیک بھی دیا ریاست بہاولپور کا ایک اور کارنامہ بھی ہے جو رہتی دنیا تک سنہرے حروف میں لکھا رہے گاوہ یہ کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تو جسٹس محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج ریاست بہاولپور نے 7 فروری 1935 کو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اور خارج اسلام قرار دیا

ریاست بہاولپور کے مسلمان عباسی حکمرانوں نے جامعہ الازہر کی طرز پر 1879 میں ایک عظیم الشان درسگاہ مدرسہ صدر علومِ دینیات کے نام سے بنیاد رکھی بعد ازاں 1925 میں  اس کا نام جامعہ عباسیہ رکھا گیا نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان خامس عباسی نے اس کو مزید وسعت دی اس میں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ طب کی بھی تعلیم دی جانے لگی اس جامعہ کے اولین شیخ الجامعہ ( وائس چانسلر) بحر العلوم علامہ غلام محمد محدث گھوٹوی کو بنایا گیا جو عالمی شہرت کے حامل ماہر تعلیم اور علامہ فضل حق رام پوری اور علامہ عبدالحق خیر آبادی کے شاگرد تھے ریاست بہاولپور میں محدث گھوٹوی کو وزیر معارف اور شیخ الاسلام کا اعزاز بھی حاصل تھا یہاں برصغیر کے ممتاز

علماء کرام درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے جن میں مفسر قرآن ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی اور حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی اور مولانا شمس الحق افغانی وغیرہ  جامعہ عباسیہ میں عام پرائمری پاس طالبعلم پہلی عربی جماعت میں داخلے کا اہل ہوتا  جامعہ عباسیہ کے تعلیمی مدارج اولیٰ عالم، ثانیہ عالم، ثالثہ عالم، رابعہ عالم ۔ اولیٰ فاضل، ثانیہ فاضل، ثالثہ فاضل۔ اولیٰ علامہ، ثانیہ علامہ، ثالثہ علامہ پر مشتمل تھے مذکورہ دس درجات کے ساتھ جامعہ کا فارغ التحصیل دینی سکالر ہونے کے ساتھ  سرٹیفائیڈ اور ریگولر گریجوایٹ بنتا تھا اس کے بعد اگر کوئی چاہتا تو پی ایچ ڈی بھی کرسکتا تھا جو کہ الشیخ فی التشریع الاسلامی کے نام سے رائج تھی

سید محمد علی شاہ  میر محمد الداعی حضرت قاضی عظیم الدین مرحوم یہیں سے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر تھے جامعہ عباسیہ بہاولپور جامعہ الازہر مصر کے بعد عالمِ اسلام کی دوسری بڑی درسگاہ تھی جہاں بر صغیر پاک وہند کے علاوہ دیگر ممالک کے متلاشیان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے تشریف لاتے تھے اس کی علمی و تربیتی  شہرت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسی جامعہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ والی گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دونوں پوتے حضرت شاہ عبد الحق گیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سید غلام معین الدین شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے دنیائے اسلام کے اس عظیم علمی مرکز سے اکتسابِ علم کیا ہے

1963ء میں صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے جامعہ عباسیہ کا دورہ کیا اور اسے جامعہ اسلامیہ کے نام سے موسوم کیا گیا 1975ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طور پر پنجاب اسمبلی سے چارٹر قرار پائی اس وقت یونیورسٹی کے چار علاقائی کمیپس  ہیں جو رحیم یار خان احمد پور شرقیہ لیاقت پور اور بہاولنگر میں طلباء کو زیور علم سے مزین کر رہے ہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے غیر معمولی ترقی کی ہے خاص طور پر ہائر ایجوکیشن رینکنگ میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ایشیاء کی پہلی 500 اور دنیا کی پہلی 1000جامعات میں شامل ہو چکی ہے

جولائی 2019  میں طلباء و طالبات کی تعداد 13500 کے لگ بھگ تھی جو اب بڑھ 60000  سے زائد ھو چکی ہے اس تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ نے گورنمنٹ سے مل کر یونیورسٹی کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے 1250 ایکڑ زمین حاصل پور روڈ پر بہاولپور سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر مختص کی گئی ہے جہاں پر نئی تعمیرات تیزی سے مکمل کی جا رہی ہیں اس عظیم الشان درسگاہ کو کسی کی نظر کھا گئی ہے جو درسگاہ کبھی تقوی و طہارت کی آماجگاہ تھی آج گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہی ہے جو کبھی ایک خانقاہ تھی آج ایک کوٹھا بنی ھوئی ہے جو کبھی علم وعرفان کے جام پلا رہی تھی آج مہ خانہ بنی ھوئی ہے جہاں کبھی بڑے و چھوٹے لالہ جی جیسی عظیم الشان ہستیاں زانوئے تلمذ طے کرنا اپنا فخر محسوس کرتے تھے آج اس درسگاہ کا نام لینا کوئی گوارا نہیں کر رہا ارباب اختیار کو چاہیے کہ اگر انہوں نے اپنی نسلوں کو علم کی دولت سے محروم نہیں کرنا تو خدارا ان تمام کرداروں کو سرعام سزا دی جائے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں