چوھدری محمد اشفاق‘ نمائندہ پندی پوسٹ
میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم راولپنڈی پنجاب کے 36 اضلاع میں سے اپنی کارکردگی کے لحاظ سے 33 ویں نمبر پر آیا ہے رپورٹ کے مطابق اساتذہ کی حاضری کے حواے سے 35ویں نمبر پر آیا ہے طلبہ کی حاضریوں کے حوالے سے 13ویں نمبر پر اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز کی سکولوں کے دوروں کے حوالے سے 32ویں نمبر پر آیا ہے یہ رپورٹ سکول ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے جاری کی ہے ضلع راولپنڈی کے حوالے سے یہ رپورٹ پڑھ کر والدین ایک بار پھر مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں حکومت نے اساتذہ کے بے شمار مراعات سے نواز رکھا ہے ان کو ہر طرح کی سہولیات دے رکھی ہیں فی سکول میں اساتذہ کی آسامیوں میں اضافہ ہو چکا ہے اس کے باوجود اتنی ناقص کارکردگی نے والدین کو چکرا کر رکھ دیا ہے بڑے عرصے سے یہ ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ سرکاری سکولوں کی کارکردگی اب پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو چکی ہے مگر اس رپورٹ نے سارے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ والدین کو صرف فرضی دعووں پر گمراہ کیا جاتا رہا ہے کارکددگی بچوں کو تعلیم دے کر نہیں دکھائی جاتی رہی ہے بلکہ کارکردگی سکولوں کو رنگ روغن کر کے اور والدین پر رعب جما کر دکھائی گئی ہے سکولوں میں سیکورٹی کے حوالے سے بھی پنجاب گورنمنٹ نے ہیڈز کو خصوصی فنڈز مہیا کیئے ہیں تا کہ اس حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش نہ رہے سکولوں میں اعلی قسم کے فرنیچر فراہم کیئے گئے ہیں اساتذہ کو وہ مراعات دیں جو پنجاب گورنمنٹ کے دوسرے محکموں کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں ان کی تنخواہوں میں سے اگر ایک سو روپیہ بھی کاٹ لیا جائے تو پورا ضلع ہلا کر رکھ دیتے ہیں لیکن اس مایوس کن رپورٹ پر تمام اساتذہ تنظیموں نے بلکل خاموشی اختیار کر لی ہے اب ان کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے سکولوں میں متعلقہ والدین کو بلوا کر اپنے آپ کو والدین کی عدالت میں پیش کریں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کا وعدہ کریں کیوں کہ والدین اپنے بچوں کو بڑی مشکل سے تعلیم دلوا رہے ہیں وہ اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کی ضروریات پورا کر رہے ہیں لیکن اگر ان کو ایسے نتائج مل رہے ہیں تو وہ یقیناًمایوس ہی ہوں گے دوسری طرف اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز جن کا کام ہی سکولوں کو چیک کرنا ہے وہ سارا سارا دن دفتروں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں وہ اپنے فراٗض منصبی کیوں نہیں صحیح طرح ادا کرتے ہیں وہ سکولوں کے دورے کیوں نہیں کرتے ہیں گورنمنٹ نے ہر دو تین یو سیز پر ایک اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر تعینات کر رکھا ہے اس کے باوجود بھی ان کا کارکردگی کے لحاظ سے 32ویں نمبر پر آنا نہایت ہی قابل افسوس بات ہے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز کا سکولوں کے دورں کے حوالے سے دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ چند دن قبل ایک سرکاری تقریب کے دوران میری ملاقات تھصیل کلرسیداں سے تعلق رکھنے والے چند اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز سے ہو گئی میں نے ان سے پوچھا کہ آپ میں سے یو سی غزن آباد کے سکول کس کے ما تحت آتے ہیں ان میں سے ایک یاسر اکرام نامی افسر نے کہا کہ یو سی غزن آباد میرے پاس ہے میں نے ان سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کبھی میرے گاوں کے سکول کا دورہ مجھے بتا کر کریں میں آپ کو سکول کے حوالے کچھ گزاشات اور کچھ مسائل سے متعلق آپ کو آگاہ کروں گا لیکن وہ بات کا بغیر کوئی جواب دیئے دوسری طرف متوجہ ہو گئے کیوں کہ انہوں نے اس بات کو بلکل فضول سمجھ کر ٹال دیا تو یہ حال ہے ان کی زمہ داری کا ایسی صورتحال میں ان کا کارکردگی کے لحاظ سے 32 نمبر پر آنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے شکر ہے چار ضلعوں سے تو آگے رہے آئندہ یہ فرق بھی دور کر دیں گے حیرانگی اس بات پر ہے کہ ڈپٹی ڈی او میل ان کو سارا دن اپنے پاس کیوں بٹھائے رکھتے ہیں ان کو اپنے اپنے سکولوں کی وزٹ کرنے کی ہدایات کیوں نہیں کرتے ہیں ان کا خراب کارکدگی میں ڈپٹی ڈی اوز کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے ہمارے معاشرے مین اساتذہ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اساتذہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ والدیں اور عام افراد ان کو مزید قدر کی نگاہ سے دیکھیں ایسا تب ہی ممکن ہو سکے گا جب اساتذہ کرام اپنے فرائض کو اپنی زمہ داری سمجھ کر ادا کریں گئے وہ بچوں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیں گئے ناقص کارکردگی والدین کسی بھی طرح برداشت نہیں کریں گے یہ کتنے تعجب اور نا انصافی کی بات ہے کہ 36 ضلعوں میں سے 33 نمبر پر آنا اپنے فرائض سے غفلت اور لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے امید ہے کہ ضلع راولپنڈی کے اساتذہ آئندہ سال اگر پہلے نمبر پر نہ ہی سہی تو کم از کم پندرہ بیس ضلعوں سے آگے نکل جائیں گے
133