229

شاہد خاقان عباسی کے متبادل ن لیگ سے امیدوار کون ہوگا؟

صداقت عباسی کی سیاست سے دستبرداری کے اعلان سے تحریک انصاف کو بھی مشکل کا سامنا
نواز شریف دیرینہ ساتھی راجہ ظفر الحق کی سیاست راہ دوبارہ ہموار کرسکتے ہیں

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 51کی سیاسی صورتحال اس وقت مندی کا شکار ہو چکی ہے جس کی بنیادی دو سیاسی جماعتوں کے سابق ایم این ایز کی سیاست سے کنارہ کشی ہے ان دو جماعتوں کے علاوہ بھی اس حلقہ میں کسی بھی سیاسی جماعت کا ایم این اے کا امیدوار کوئی بھی موجود نہیں ہے جو بھی امیدوار ہیں وہ سبھی ایم پی اے کے امیدوار ہیں ن لیگ کے سابق ایم این اے شاہد خاقان عباسی اپنی پارٹی سے نالاں ہیں پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے صداقت علی عباسی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں جہاں تک تعلق ہے شاہد خاقان عباسی کا تو اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ نواز شریف ان کو منانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے اور ایسا کرنا ان کی زمہ داری بھی بنتی ہے

جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کے ن لیگ کے اس حلقہ سے روح رواں راجہ محمد ظفر الحق اور ان کے فرزند راجہ محمد علی سے بہت قریب کے تعلقات ہیں اس بات کے بہت زیادہ چانسز ہیں کہ اگر شاہد خاقان عباسی نے اپنی پارٹی کا ساتھ نہیں دیا تو حلقہ کے تمام معاملات راجہ ظفر الحق کے سپرد بھی کیئے جا سکتے ہیں مذکورہ حلقہ ن لیگ کیلیئے کڑا امتحان ثابت ہو گا شاہد خاقان عباسی اگر اپنی پارٹی کے ساتھ راضی ہو جاتے ہیں تو وہ سابق ایم پی اے راجہ صغیر کو اپنے ساتھ چلائیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ راجہ محمد ظفر الحق ایک مرتبہ پھر پس پردہ چلے جائیں گے اور پارٹی معاملات سے علیحدگی اختیار کر لیں گے شاہد خاقان عباسی اور راجہ محمد ظفر الھق میں سیاسی قرابت بلکل نہیں ہو سکے گی’

ن لیگ کی مرکزی قیادت میں دو گرپس ہیں ایک گروپ میاں نواز شریف کی صورت میں راجہ ظفر الحق اور شاہد خاقان عباسی کی حمایت کرے گا جبکہ حمزہ شریف راجہ صغیر گروپ کی حمایت کرے گا کیوں کہ راجہ صغیر نے بھی مشکل وقت میں شہباز شریف اور حمزہ شریف کو سپورٹ کیا تھا ن لیگ سیاسی حوالے سے اپنے صرف ایک گروپ کو اپنے ساتھ چلا سکے گی تما م گروپس اکٹھے نہیں چل سکیں گئے شاہد خاقان عباسی اگر پارٹی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں تو ان کا گروپ بلال یامین کی قیادت میں دیگر چند سابق چئیرمینوں کو اپنے ساتھ ملا کر فارورڈ بلاک تو ضرور بنا سکتے ہیں لیکن وہ فارورڈ بلاک اتنا مضبوط نہیں ہو گا جو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو سکے گا وہ گروپ صرف رونے پیٹنے تک محدود ہو جائے گا دوسرے طرف اگر حقیقت کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو حلقہ کے عوام راجہ ظفر الحق اور راجہ محمد علی کے طرز سیاست سے بلکل نالاں ہیں

راجہ ظفر الحق کا نام بڑا ضرور ہے لیکن وہ عوام میں اپنی جڑیں بنانے میں ابھی تک ناکام ہیں شاہد خاقان عباسی کی عوام میں جڑیں ضرور موجود ہیں عوام ان کے طرز سیاست کو زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت ضرور پسند کرتے ہیں راجہ صغیر جیسے بھی ہیں عوام کا ایک بہت بڑا گروپ ان کی دلیرانہ سیاست کو پسند کرتے ہیں ن لیگ کی مرکزی قیادت میں بھی وہ اپنا کچھ مقام بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اب ان تمام امیدواران کا کلرسیداں جو اس حلقہ کا اہم ترین حصہ ہے کے ساتھ سیاسی تعلق کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر حلقہ کے سارے سیاسی معاملات شاہد خاقان عباسی اور راجہ صغیر کے ہاتھوں میں دے دیئے جاتے ہیں تو کلرسیداں کے کسی بھی امیدوار خواہ وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو کچھ بھی نہیں مل سکے گا خاص طور پر ٹکٹ کے حوالے کلرسیداں بلکل آؤٹ ہو جائے گا کیوں کہ شاہد خاقان عباسی اور راجہ صغیر کے پاس کلرسیداں کو دینے کیلیئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے

نہ ہی وہ کلرسیداں کے
امیدواروں کیلیئے کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں شاہد خاقان عباسی اور راجہ صغیر کا کلرسیداں کے حوالے سے صرف اتنا مقصد ہے کہ کلرسیداں کے عوام سے انہوں نے صرف ووٹ لینے ہیں اگر حلقہ کے سیاسی معاملات راجہ محمد ظفر الحق اور راجہ محمد علی کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں تو وہ کلرسیداں کیلیئے خوش آئند ثابت ہو گا کیوں کہ راجہ ظفر الحق اگر خود یا راجہ محمد علی کو میدان میں اتاریں گے تو وہ ایم پی اے کا امیدوار یقینا کلرسیداں سے لیں گے اس طرح وہ کہوٹہ اور کلرسیداں کے درمیان جو کچھ عرصہ سے تھوڑا تناؤ پیدا ہو چکا ہے اس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان کے دل میں کلرسیداں کے امیدواروں کیلیئے گنجائش موجود ہے اور ان کے زہن میں یہ بات موجود ہے کہ کلرسیداں کو ساتھ لے کر چلنا ہے اگر کلرسیداں کو سیاسی میدان میں کوئی حصہ نہ بھی مل سکا

تو وہاں سے ایسے امیدوار جو الیکشن لڑنے کے اعلانات کرتے پھر رہے ہیں اتحاد قائم کر رہے ہیں وہ شور واویلا تو ضرور مچا سکیں گے لیکن ان کا اتحاد اتنا مضبوط ثابت نہیں ہو سکے گا وہ کچھ ہی وقت میں پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائیں گے اور ان کا یہ موجودہ اتحاد ہمیشہ کی طرح بلکل بے معنی ہو جائے گا مسئلہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ کلرسیداں کے امیدوار اکٹھے بیٹھ کر یہ سوچیں کہ وہ ٹکٹ ضرور لیں گے اس سے وہ بہت دور ہیں بلکہ وہ بیٹھ کر اس بات پر غور کریں کہ کلرسیداں سے جو بھی امیدوار سامنے آئے ہیں وہ پڑھے لکھے بھی ہیں ان کی سیاسی ساکھ بھی اچھی ہے کلرسیداں میں ن لیگ کا بہت بڑا ووٹ بینک بھی موجود ہے اس کے باوجود بھی وہ اتنے کمزور کیوں ہیں ان کی کسی بھی دور میں سنائی نہیں ہو رہی ہے

وہ ٹکٹ سے ہر مرتبہ کیوں محروم رہ جاتے ہیں رہی بات پی ٹی آئی کی تو اس کا ووٹ بینک 2018کی طرح اپنی جہگہ پر بلکل قائم و دائم ہے پارٹی کی پستی کی وجہ سے ان کا ووٹ خاموش ضرور ہو گیا ہے لیکن وقت آنے پر وہ نمودار ہو جائے گا اگر پی ٹی آئی کے امیدوار سامنے نہ بھی آئے تو ان کا ووٹ کسی اور صورت میں اپنا کردار ادا کرے گا جو ن لیگ کیلیئے نقصان دہ بھی ثابت ہو گا دوسری طرف ٹی ایل پی بھی اس حلقہ میں دن بدن مضبوط جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے بہر حال ضرورت اس مر کی ہے کہ ن لیگ اس حلقہ سے ایسے امیدواروں کو کو سامنے لائے جو پورے حلقے کے عوام کو ایک ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو سکیں اور خاص طور پر کہوٹہ اور کلرسیداں میں جو ایک سیاسی تناؤ پیدا ہو چکا ہے اس کو ختم کروانے میں کامیاب ہو سکیں کلرسیداں کے عوام اور امیدوار خود کو سیاسی طور پر کمزور تصور کر رہے ہیں جماعت اسلامی بھی اس حلقہ میں اپنی حقیقی خدمات کی بدولت عوام کے دلوں میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں