116

حکومت کی عوام کش پالیسیاں

قارئین کرام!! ہر سال رمضان المبارک میں حکومتی ہدایت پر سستے بازار لگائے جاتے تھے جن کا نام صرف سستا بازار ہوتا تھا، وہاں آٹا اور چینی تو سستے داموں حکومتی ریٹ پر مل جاتے تھے مگر باقی ہر چیز معیار اور کوالٹی سے کم ہوتی تھی اور شہری بھی ان سستے بازاروں کو کم ہی ترجیح دیتے تھے، ان سستے رمضان بازاروں کے انتظامات و تشہیر کے نام پہ ہر سال ہر تحصیل کی سطح پر لاکھوں روپے کا چونا عوام کو لگایا جاتا تھا اور پورے پنجاب میں اربوں روپے کے حساب سے عوامی ٹیکس پہ ڈاکہ پڑتا تھا، اس سال چونکہ پنجاب میں نگران حکومت ہے تو شہباز شریف حکومت اور محسن نقوی حکومت کی ملی بھگت سے مفت آٹا سکیم کا اجراء کیا گیا جس میں اہلیت کے لیے آمدنی کا دارومدار نہیں بلکہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اہل ہونا ہے، آمدنی کے حوالے سے راقم نے مختلف شہریوں سے معلوم کیا جن کا کہنا تھا کہ ہماری آمدنی تو 60 ہزار سے کم ہے مگر ہم آٹا لینے کے لیے اہل نہیں۔ جسکی واضح وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اس فری آٹا سکیم کے تحت اہل وہی ہیں جن کی رجسٹریشن پہلے سے ہو چکی ہے اور اب انکی آمدنی بیشک ایک لاکھ روپے بھی ہے وہ اس فری آٹے کیلیے اہل ہیں تو اس صورتحال میں متوسط طبقے کا آدمی بہت پریشان ہے جس کی آمدنی بھی کم ہے اور وہ فری آٹا بھی لینے کا اہل نہیں اور خریدنے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ اب حکومتی عوام کش پالیسیوں کے تحت 10 کلو آٹے کا تھیلا 12 سو کا ہو چکا ہے۔ دوسری جانب ماضی و حال کی طرف نظر دوڑائیں تو عوام کی تذلیل کا کوئی طریقہ حکومتیں ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، چینی ہو یا آٹا، کھاد ہو یا کچھ اور لائنوں میں لگا کر تذلیل کرنا حکومتیں اپنا حق سمجھتی ہیں اور عوام اس تذلیل کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھی ہے اور کسی کے منہ میں زبان تک نہیں رہی، شہریوں کا کہنا ہے کہ 650 روپے کا آٹے کا تھیلا 11 سو روپے تک بڑھا کر مفت آٹا مہیا کرنے کا ڈرامہ بالکل بے سود ہے کیونکہ اس سے متوسط طبقے کا آدمی بری طرح پِس کر رہ گیا ہے، اگر آٹا 650 روپے کا ہی ملتا رہتا تو غریب و متوسط طبقے کا آدمی باآسانی خرید کر اپنا گزر بسر کر لیتا، اسی طرح کا ایک واقعہ سرور شہید سٹیڈیم کے دورے کے دوران راقم کی نظر میں آیا کہ ایک نوجوان اپنے دو بچوں کے ہمراہ خوار ہو رہا تھا جس نے بتایا کہ اس نے نمبر پر میسج کیا ہے مگر جواب نہیں آیا اور دکان پہ پیسے دے کر بھی آٹا نہیں مل رہا کیونکہ ذخیرہ اندوز سرگرم ہیں اور وہ آٹا سٹاک کر کے بیٹھے ہیں جو رمضان کے بعد وہ مزید مہنگے داموں فروخت کریں گے کیونکہ تب تک مفت آٹا بھی ختم ہو چکا ہو گا اور خریدنا ہر شخص کی مجبوری بن چکا ہو گا۔اس وقت پورے ملک اور بالخصوص پنجاب میں مختلف جگہوں پہ خواتین و حضرات کی روزے کی حالت میں خوار ہونے کی خبریں میڈیا پر ہیں، اس دوران حبس، گرمی، بھگدڑ کے باعث ہونے والی اموات کا ذمہ دار کون ہے پنجاب حکومت یا وفاقی حکومت؟ یا کوئی بھی نہیں؟یاد رہے کہ یہ مفت آٹا نہیں بلکہ اس کی بھی قیمت ہے کہ اس آٹے کے تھیلے کیلیے عوام اب اپنی جان دے گی۔۔ کیونکہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں