173

تھانہ چونترہ میں انصاف کا ترازو غنڈوں کے ہاتھ

چک بیلی خان سے ملحقہ موضع لس ملائی جو تھانہ چونترہ کی حدود میں آتا ہے وہاں ایک بچے کی بنائی ہوئی وڈیو علاقے کے غنڈہ گرد عناصر کیلئے ایک گرفت کی بنیاد بننا شروع ہو گئی ہے پی ٹی آئی کی راہنما اور ممبر ٹیکنوکریٹ طیبہ ابراہیم اور ان کے شوہر ایف بی آر کے اعلیٰ آفیسر میاں محمد ابراہیم چھٹی گذارنے اپنے آبائی گاؤں لس ملائی گئے ہوئے تھے کہ اٹھارہ بیس غنڈے دو ویگو گاڑیوں میں سواراسلحہ کے ہمراہ میاں محمد ابراہیم کے فارم ہاؤس میں داخل ہو کر گالم گلوچ شروع ہو گئے اور اسلحہ تان لیا میاں محمد ابراہیم نے فوراً کمرے میں جا کر ون فائیو پر کال کی جس کے باعث وہ وہاں سے غائب ہو گئے بعد ازاں میاں ابراہیم نے مقامی پولیس چوکی چک بیلی خان پر کاروائی کیلئے درخواست دی اورپولیس کے اعلیٰ افسران سے بات کی ابتدا میں تو مقدمہ درج نہیں کیا گیا لیکن پولیس کے اعلیٰ افسرا ن کے نوٹس لینے کے بعد مقدمہ نمبر430/22درج کر لیا گیا جس میں 506ii/148/149 کی دفعات لگائی گئیں وجہ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ میاں محمد ابراہیم کا اپنے رشتہ دار عبادت حسین کے ساتھ زمین کا تنازعہ تھا جس کے بلانے پر یہ غنڈے آئے تھے میاں محمد ابراہیم نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو بتایا کہ موضع روپڑ کلاں کے رہائشی پیر مسعود نامی آدمی نے علاقہ بھر سے نامی گرامی جرائم پیشہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہو اہے ان کی جرائم میں مدد کرتا ہے اور بوقت ضرورت ان سے زمینوں پر قبضے کے کام لیتا ہے جرائم پیشہ لوگ دیگر لوگوں کو بھی قبضے کیلئے فراہم کرتا ہے اور پھر ان سے اپنے حصے وصول کرتا ہے اس طرح ہزاروں کنال اراضی کا مالک بن چکا ہے اس سے پہلے بھی پیر مسعود پر دوسرے لوگوں کی جائیدادوں پر اپنے بندے بھیجنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں تاہم باتیں صرف زبان سے کان تک ہی محدود رہی ہیں میڈیا میں ایسے واقعات خال خال ہی نشر ہوئے ہیں اس مرتبہ ایک با اثر آدمی سے متھا لگانے کے بعد میڈیا میں آئے روز اس گینگ کی خبریں نشر ہو رہی ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی کیلئے جب ملک میں پولیس اور دیگر ادارے موجود ہیں توپھر وہاں پیر مسعود جیسے گینگسٹر سے لوگوں کا معاملات حل کروانا ریاستی اداروں کیلئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے وائرل ہونے والی وڈیو میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملک کی کروڑوں خواتین کی ترجمانی کرنے والی خاتون کے سامنے پیر مسعود کی گالم گلوچ اور غلط زبان ریاست کی رٹ قائم کرنے والے لوگوں کے منہ پر بھی طمانچے سے کم نہیں اور معاملہ ایک FIRدرج ہونے سے بھی حل نہیں ہو گا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے تھانہ چونترہ کو خصوصی طور پر نظر میں رکھ کر ایک جامع حکمت عملی بنائیں اورجرائم کیلئے بنے ہوئے ایسے گینگ ختم کروائیں کیونکہ یہی گینگ ہیں جو سٹریٹ کرائم کی چھتری ہوتے ہیں یہ باتیں عوام کی نظروں کے سامنے تو ہوتی ہیں لیکن صفحہ مثل پر نہ آنے کی وجہ سے عدالتوں تک نہیں پہنچ پاتیں رہی کسر اس وقت نکل جاتی ہے جب ایسے جرائم پیشہ لوگ سال بھر حرام کی کمائی کرتے ہیں پھر ایک آدھا مذہبی پروگرام کروا کر اور لوگوں میں تھوڑا سا گوشت بانٹ کر سب حلال کر لیتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں