گزشتہ ماہ آزاد کشمیر کی حکومت نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں مخلوط تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم خواتین اساتذہ اور طالبات کو حجاب پہننے کا حکم دیا گیا تھا۔ سرکلر میں تعلیمی اداروں کے سربراہان کو پابند کیا گیا کہ وہ حجاب کے حکم پر عملدرآمد یقینی بنائیں، حکم پر عمل نہ کروانے والے سربراہان کے خلاف کاروائی کا عندیہ بھی دیا گیا۔یہ یقینا آزاد کشمیر کی حکومت کا ایک بہترین اقدام ہے جو اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور شریعت اس کا تقاضا کرتی ہے جو کہ معاشرے کے لیے سراپا خیر ہے۔ ایک اسلامی ریاست کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے نہ صرف قابل بنائے بلکہ جن احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں فتنہ پھیلنے کا خدشہ ہو ان پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ اس کی کئی ایک مثالیں ہمیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں کہ دینی احکامات پر رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوار میں سختی سے عملدرآمد کرایا جاتا رہا۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں مؤمن خواتین کو حجاب کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، ترجمہ: ”اور مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں“ (النور: 31)۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے، ترجمہ:”اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ اس سے بہت جلد وہ پہچانی جائیں گی اور پھر انہیں تکلیف نہیں دی جائے گی“ (الاحزاب: 59)۔ ایک مرتبہ حضرت اسماء بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت آئیں تو انہوں نے باریک لباس پہنا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے چہرہ پھیر لیا اور فرمایا: اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو درست نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا(ابوداؤد: 1404)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک باندی کو سر ڈھانپنے پر مارا تھا کیونکہ اس سے آزاد اور غلام خواتین کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب میں بھی حجاب کا مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے۔ یعنی باحجاب خواتین آزاد اور باعزت گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ باندیوں کی معاشرے میں عزت نہیں ہوتی تھی، جس کی وجہ سے منافقین باندیوں کو چھیڑنے کے بہانے آزاد خواتین کو بھی چھیڑتے تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مؤمن خواتین کو پردے کا حکم دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے باندی کو آزاد عورتوں جیسا لباس پہننے سے منع فرمایا۔ معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست معاشرے کے لباس پر بھی نظر رکھ سکتی ہے اور انہیں مخصوص لباس پہننے اور پردہ کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ ہر معاشرے میں حکومتوں کی طرف سے کہیں نہ کہیں لباس کی پابندی کرائی جاتی ہے اور شہریوں کو بالکل آزاد نہیں چھوڑا جاتا۔
تعلیمی اداروں میں مخصوص لباس ہوتا ہے جس کی پابندی ہر طالب علم کو کرنی ہوتی ہے، اسی طرح مختلف محکموں جیسے پولیس، فوج وغیرہ کا بھی لباس حکومت کی طرف سے تجویز کردہ ہوتا ہے جس کی خلاف ورزی کرنے پر ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔ ایئر ہوسٹسزاور پائلٹس کا بھی مخصوص لباس ہوتا ہے وہ جس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔عیسائیوں کے گرجا گھروں میں بھی خواتین راہبات ہوتی ہیں جو حجاب اور مخصوص لباس پہنتی ہیں۔ اسی طرح اسلامی معاشرے کا بھی ایک مخصوص لباس ہے جس کا مقصد شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کا معاشرے میں فروغ اور لوگوں کو جنسی بے راہ روی سے محفوظ رکھنا ہے۔ دیگر معاشروں، اداروں اور محکموں میں اگر لباس کی پابندی کرائی جائے تو وہ ٹھیک ہے اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا مگر اسلامی معاشرے میں اگر کہیں خواتین کو مکمل لباس پہننے اور پردہ یا حجاب کرنے کا حکم دیا جائے تو لوگوں کی طرف سے تنقید کی بار ش شروع ہو جاتی ہے۔ اور یہ تنقید غیر مسلموں کی طرف سے بعد میں اور مسلمانوں کی طرف سے پہلے کی جاتی ہے جو کہ زیادہ باعث افسوس ہے۔ ہمارے معاشرے کے مغرب زدہ مسلمان پاکستان میں حجاب کی پابندی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں اور اکثر حکومتیں اور ادارے ان افراد کے پروپیگنڈے کے خوف سے حجاب کی پابندی نہیں کرا پاتے۔ لہٰذا حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں دینی تعلیم عام کرے اور تمام تعلیمی اداروں خاص طورپر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم کو مؤثر طریقے سے ایک منظم نصاب کے ساتھ پڑھائے۔ مسلمان طلباء میں دینی تعلیمات کو اپنانے کا جذبہ پیدا کرے اور انہیں نماز، روزہ اور دیگر عبادات اور اسلامی احکامات کا پابند بنائے۔ آزاد کشمیر کی حکومت کا یہ مستحسن اقدام ہے کہ اس نے خواتین کو حجاب کا پابند بنانے کی ایک کاوش کی جو کہ نہایت مستحسن اقدام ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں پوری طرح اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو حقیقی معنوں میں اسلامی معاشرہ بنا دے۔