بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ

زمین ادب کی آبیاری جگر کے خون کا خراج مانگتی ہے جبکہ شعر مشاہدات و تجربات اور مجاہدے کی بھٹی سے پک کر قرطاس پر رقم ہوتا ہے شخصیات زبان وادب کی پہچان ہوتی ہیں یہ ایسی ہی ایک نابغہ روزگار شخصیت کی فن و ثقافت و ادب سے محبتوں کا احوال بیان کرنے جارہا ہوں جس نے اپنی زندگی پوٹھوہاری ادب میں مکتبہ فکر احمد علی سائیں ایرانی پشوری ؒ کی آبیاری میں لہو کا خراج دے کر گزار دی محسنِ پوٹھوہار ماسٹر دلپذیر شاد ؒ کے گھر کلرسیداں شہر میں 10 جنوری 1969ء کو اولاد نرینہ محمد جمیل کے نام سے موسوم تولد ہوئی جنہیں آج دنیائے ادب ”بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ” کے نام سے جانتی ہے آپ چار بہنوں اور تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے آپ کی والدہ محترمہ کے مطابق آپ عام بچوں کی نسبت زیادہ وقت میں پیدا ہوئے (آپ ماں کی کوکھ میں کم و پیش تیرہ ماہ رہنے کے بعد تولد ہوئے) بچپن ہی سے طبیعت قلندرانہ مزاج تھی جس کی وجہ سے سولہ سال کی عمر میں ہی شہر کے بزرگوں نے آپ کی علمی و فکری گفتگو کی وجہ سے آپ کو ”باوا جی” کہنا شروع کر دیا دنیاوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں سے مارچ 1984 ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج کلرسیداں سے ایف اے پاس کیا پہلے سال کے امتحان کے بعد 1985 ء میں آپ پاکستان نیوی کراچی میں گوریلا فائٹر بھرتی ہوئے پاسنگ آؤٹ کے بعد دوسرے سال کا امتحان پاس کیا جبکہ دین کی طرف رغبت زیادہ تھی اس لیے جید علماء کرام سے تفسیر قرآن اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کی محض اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے تایا محمد رشید کے گھر سے 05 جون 1988 ء کو شادی کی جس سے چار بیٹیاں تولد ہوئیں جبکہ دوسری شادی 25 مئی 2014 ء کو ہوئی جس سے دو بیٹے باوا عبدالسبحان 09 اپریل 2015 ء اور عبدالیزدان قلندر 14 اپریل 2016 ء پیدا ہوئے۔ تین سال نوکری کرنے کے بعد طبع کا میلان نہ ہونے کی وجہ سے نوکری چھوڑ دی اس کے بعد تادمِ مرگ محنت مزدوری ہی پیشہ رہاباوا جی ؒ کے مطابق 1987ء میں ایک شاعر مرحوم سے کسی دوست نے اشعار کی طلب کی تو ان شاعر صاحب نے نہیں دیے جس کی وجہ سے باوا جی نے اس دوست سے کہا کہ میں شعر لکھ کر دوں گا جس پر اشعار کہنے کا سلسلہ شروع ہوا جب اشعار تواتر اور ترتیب سے وارد ہونا شروع ہوئے تو اسی دوست سے کہا کہ اب کسی استاد کی ضرورت ہے جس پر فقیر شاعر مرزا شیر زمان ؒ کے ہاں سکرانہ تحصیل کہوٹہ (موجودہ کلرسیداں) حاضر ہوئے جس پر مرزا ؒنے شفقت فرماتے ہوئے ایک رقعہ بنام فخر ایشیاء اللہ دتہ جوگی جہلمی رح کے لکھ کر روانہ کیا اور یوں اوائل 1988 ء میں آپ جہلم شریف کے مشین محلہ میں جوگی جہلمی ؒکے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے میں کامیاب ہوئے شاگرد کرتے وقت جوگی جہلمی رح نے استاد سرکار سے یہ فرمایا کہ” جا پتر کے پوٹھوہار وچ کوئی تیرے سخن تے انگلی رکھے تے کہہ دیئیں جواب جوگی جہلمی دیوے گا” آپ کے والد بزرگوار پوٹھوہار کے بلند پایہ شاعر اور ادیب تھے ان سے بھی کسب علم و فن حاصل کیا عروض کی مجموعی تعلیم آپ نے اپنے والد سے حاصل کی انکے بعد ڈاکٹر رشید نثار مرحوم کا نام آتا ہے شعراء کرام میں آپ کے دوستوں میں قلندر دوراں سائیں محمد فیاض ویران مدظلہ العالی ڈاکٹر غضنفر دکھی مرحوم اور بھٹی عجب ضیاء مرحوم شامل تھے جبکہ اواخر عمری میں شاعر کوہسار بابو جمیل احمد جمیل، قمر افضال اعوان شامل ہیں شعرخوان دوست چاچا راجہ رزاق مرحوم محمد زبیر قریشی، ازرم بھٹی اور راجہ ساجد محمود شامل ہیں جبکہ زاتی دوستوں میں ماسٹر اعظم بھٹی، ماسٹر خرم، راجہ منزل، محمد مختار مرحوم، ملک اطلس مرحوم، راجہ شفیق مرحوم، نمبردار عنصر مرحوم، راجہ ضیاء، محمد احسان، لالا صدیق، محمود الحسن، چوہدری الیاس، سردار نزاکت، اظہر محمود رہبر، ماسٹر عارف، ماسٹر منیر، خرم بٹ، راجہ ابرار، راجہ جاوید، باوا پرویز اور راجہ محمد اکرم شامل ہیں شاگردان میں ملازم حسین اشکی، طاہر آمین ہاشم، یاسین زخمی، ظہیر الدین بابر سرمد، واجد اقبال حقیر، کامران حشر، لالہ صدیق درد، عمر وقاص ابر، آزاد حسین آزاد، ارشد مخلص اور آخری شاگرد جہانگیر فکر جہلمی شامل ہیں (اس میں منحرف اور فارغ کیے گئے شامل نہیں ہیں) آپ اپنی قلندرانہ وضع قطع سے اپنے زور کلام اور زور بیان سے تادمِ آخر پوٹھوہار کے ادب پر چھائے رہے ہیں مشاعروں میں آپکی آمد مشاعروں کو کامیابی سے ہم کنار کرتی تھی بندہ حقیر کو زندگی کے بیس سال اس نابغہ روزگار شخصیت کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا ہے جس میں راقم الحروف نے ہمیشہ اپنے لئے محبتیں پائیں۔مشاعروں اور پوٹھوہاری ادب کی تاریخ میں آپ کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا
ایک سخن ہدیہ عقیدت پیش کرتا ہوں
جسدے مونہوں سن گوہرِ نایاب ڈگدے،
جس دے دست سن یدبیضا ادبوں
ماندے مرض عروض دے کہن شغفوں
اساں پائی اے کامل شفا ادبوں
گلشن ادب دا خزاں مثال ہیسی
آیا جھونکا بہاری صبا ادبوں
چراں بعد پوٹھوہار دے وچ کوئی
آیا شاعر بالصفت الصفا ادبوں
جس دے خانوادے داغ بیل رکھی
جس نیں سخن سیں دتی جلا ادبوں
جس نوں بابائے پوٹھوہار دا لقب ملیا،
جیہڑا ٹھہریا ماہء لقا ادبوں
جس دا اسم جمیل جمیل ہیسی
تے قلندر او بندہء خدا ادبوں
رہیا زندگی پیکر ادب واجد
ابتدا ادبوں انتہا ادبوں

اپنا تبصرہ بھیجیں