ایٹمی اثاثے

ہمارا ایٹمی پروگرام عالمی صیہونی قوتوں کی آنکھوں میں روزِاوّل سے کھٹکتا آرہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے قیام پاکستان روزِ اوّل سے ہی ہندوؤں کی نظرمیں ناپسندیدہ رہا ہے بھارتی قیادت چاہے وہ بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی شکل میں بی جے پی اپنے ہندوانہ تعصب کے نتیجے میں کشمیر ہضم کر چکی ہے جبکہ ہمارا مشرقی پاکستان کانگریسی سیکولر قیادت کی نذر ہو گیا ہندو چاہے سیکولر ہو یا متعصب وہ مسلمان کے لئے ہندوہی ہے اور پاکستان کسی بھی ہندو کو ہضم نہیں ہو گا بالکل اسی طرح پاکستان کا ایٹمی پروگرام روزِ اوّل سے ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہے عیسائی دنیا اور اس کے قائد امریکی برطانوی عیسائی اور صیہونی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پاکستانی ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ اسلامی ایٹمی پروگرام سمجھتے ہیں اور اسے نقصان پہچانے اور بالآخر ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں یہ بات انہوں نے کبھی چھپائی نہیں ہے اور جب اسے ایسا کرنے کا موقع ملے گا تو دشمن ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کرے گا مشرقی پاکستان پر جب بھارت سرکار نے حتمی وار کیا تھا تو اس وقت ہمارے سیاسی اور معاشی حالات ایسے ہی تھے جیسے آج کل ہیں اس وقت ہماری سیاسی قیادت گتھم گتھا تھی ہماری عسکری قیادت بھی عوام میں ناپسندیدہ جانی جاتی تھی اور ہماری معیشت کچھ بہت اچھی نہیں تھی ہم 1965ء کی جنگ کے زخم چاٹ رہے تھے معاہدہ تاشقند ایوب خان کی سیاست کی جڑوں میں بیٹھ چکا تھا ایوب خان کے خلاف اپوزیشن تحریک چلا رہی تھی اگر سازش کیس ہماری سیاست پر چھایا ہوا تھا ایسے ماحول میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کرائے اور پھر ہم نے دیکھا کہ انتخابی نتائج تسلیم نہ کئے گئے ملٹری ایکشن شروع ہوا دشمن بیچ میں کود پڑا اور پھر پاکستان دو لخت ہو گیا آج ہماری سیاست ابہام و دشنام میں گھری ہوئی ہے 2011ء سے جو پولیٹیکل انجینئرنگ کی جا رہی تھی وہ اب اپنے برگ و بار دکھارہی ہے عمران خان کو ایوان اقتدار میں لانے کے لئے جو آپریشن شروع کیا گیا اس نے ہماری سیاست میں جو زہر بھرا اس کے اثرات ہماری قومی سیاست پر بند آنکھوں سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں دس اپریل 2022ء میں جب عمران خان ایک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے باعث اقتدار سے الگ کر دئیے گئے تو پھر انہوں نے ایک کھلا احتجاجی موڈ اپنا لیا اتحادی حکومت کو ناکام بنانے کے لئے لانگ مارچ بھی کیا شارٹ مارچ بھی ہوا حتیٰ کہ انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں بھی توڑ دیں آج پاکستان سیاسی دورہے پر اکیلا اور تنہا کھڑا ہے دوسری طرف قومی معیشت عالم نزع میں ہے پاکستانی معیشت 126ارب ڈالر کے غیر ملکی بیرونی قرضوں میں پھنسی ہوئی ہے اکیس فیصد قرضہ ورلڈ بنک،سولہ فیصد ایشین ڈوپلپمنٹ بنک،تیرہ فیصد پیرس کلب،سترہ فیصدنان پریس کلب اور بائیس فیصد کمرشل بنکوں کا ہے جبکہ ہم نے صرف آٹھ فیصد قرض آئی ایم ایف کا دینا ہے یعنی ہمارے مجموعی قرضے کا صرف آٹھ فیصد آئی ایم ایف کا ہے جبکہ آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی قرضے صرف نفع اندوز ی کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ سیاسی و سفارتی شرائط بھی جڑی ہوئی ہوئی ہوتی ہیں امریکہ اور کچھ ہمارے عرب بھائی سی پیک کے خلاف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ آپریشنل ہو وہ نہیں چاہتے کہ چین یہاں خطے میں قدم جماسکے امریکہ بھارت کو شہ دے رہا ہے بھارت اس کا سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے اور مسلم دشمنی کا ساتھی بھی مسلم دشمنی میں بھی پاکستان ہی اوّلین و آخری دشمن ہے اشراکیت کے خلاف جہاد افغانستان
میں بھی ہمار اکردار مغرب کے لئے باعث اطمینان تھا لیکن طالبان کے خلاف دہشت گردی بیس سالہ جنگ میں مغرب کو ناکامی ہضم نہیں ہو رہی ہے امریکہ، طالبان کے ہاتھوں اپنی شکست میں ہمیں بھی ذمہ دار قرار دیتا ہے پھر چین کے ساتھ شراکت داری کے بعد تو معاملات بالکل ہی واضع ہو چکے ہیں امریکہ پاکستان کو ہر گز طاقتور دیکھنا نہیں چاہتا پاکستان کی موجودہ صورتحال میں زیادہ قصور تو ہمارااپنا ہی ہے ہماری سیاسی سفارتی اور معاشی غلطیاں ہمیں اس مقام تک لے آئی ہیں کہ آ ج ہمیں آئی ایم ایف سے 12ارب ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لئے عوام پر مہنگائی لادنی پڑ رہی ہے ڈالر حاصل کرنے کے لئے عوامی معیشت کا اپنے ہاتھوں سے کباڑا کرنا پڑرہا ہے ہماری عوامی معیشت تو مکمل طور پر فناکے گھاٹ اتر چکی ہے عام شہری بس آخری سانسیں لے رہا ہے قدرزر میں خوفناک گراوٹ آچکی ہے قومی معیشت آئی ایم ایف کے اشارہ ابروکی مرہون منت ہے اگر آئی ایم ایف نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم عملاًڈیفالٹ زدہ ہو جائیں گے یہ بات ہی کافی ہے کہ آئی ایم ایف سخت انداز میں اپنی شرائط منوا رہا ہے معاہدہ کرنے میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ کہیں اور بھی معاملات طے ہو رہے ہیں جب تک وہ طے نہیں ہو جاتے آئی ایم ایف ہمیں یونہی ذلیل و خوار کرتا رہے گا ایسے پس منظر میں یہ مطالبہ بر حق لگتا ہے کہ وزیراعظم کو فوراً قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے اور درست صورتحال قوم کے سامنے رکھنی چاہیے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے وزیر اعظم ایوان میں آکر پالیسی بیان دیں اور قوم کو ملک کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بتائیں کہ اُن پر اس حوالے سے کوئی دباؤ تو نہیں ہے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ ہونا شکوک و شبہات کو ہوا دے رہا ہے اور یہ بات بڑی اہم ہے احوال واقعی تونہیں ہے کہ ہمارے سیاسی معاشی اور معاشرتی حالات اس ابتر ہو چکے ہیں عوام میں بے یقینی اور اپنے حال سے بیزاری اس قدر فروغ پاچکی ہے کہ اب تو مسئلہ کشمیر کے ساتھ دلچسپی اور وابستگی رہ گئی ہے اور نہ ہی ایٹمی اثاثوں کی فکر ہو سکتی ہے کسی کے بچوں کو جب روٹی نہیں ملے گی شیرخواربچوں کو دودھ نہیں ملے گا بیماروں کو دوامیسر نہیں ہو گی عدالتوں میں انصاف نہیں ملے گا حکومت سے تحفظ حاصل نہیں ہو سکے گا تو ان کی بلا سے؟بھوکا صرف روٹی کی طرف دیکھتا ہے روٹی دینے والے ہاتھ کی طرف نہیں۔بالکل ایسی ہی صورتحال ہماری ہو چکی ہے دو وقت روٹی کی بات نہیں بلکہ مسئلہ صرف ایک وقت کی روٹی تک آن پہنچا ہے اگر وہ بھی مل جائے تو اللہ اللہ وگرنہ حالات اس سے بھی خراب ہیں ہمارے حکمران بشمول ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے کھیلوں میں مصروف ہیں انصاف بک رہا ہے مافیاز دندنارہے ہیں درندگی اور آوارگی کا دوردورہ ہے لگتا ہے کہ دشمن اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے کو ہے آج نہیں تو کل ہم خسارے میں جانے والے ہیں ہمیں جون 2023ء کے بعد بھی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا پھر اس کی شرائط ہوں گی اور امریکی شرائط بھی ہوں گی اور ہم ایسے ہی بے یا رو مددگار کھڑے ہوں گے اپنے اثاثے چھیننے کے خوف میں مبتلا دشمن کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں