اردو کی سرکاری زبان کی حثیت کو یقینی بنایا جائے/پروفیسر محمد حسین

دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو شکست سے دوچار ہونا پڑاتو شہنشاہ جاپان نے فاتح امریکی جرنیل سے صرف اتنی درخواست کی کہ اس کے ملک مین جاپانی زبان ہی کو ذریعہ تعلیم رہنے دیا جائے درخواست منظور ہو گئی اور اس طرح جاپان نے اپنے قومی تشخص کو محفوظ رکھا اور اس کے نتیجے

میں جاپان نے شاندار ترقی کی ۔قومیں جب اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کی بنا پر غیروں کی غلام بنتی ہیں تو ان کی آذادی کے ساتھ ساتھ ان کامذہب,ثقافت اور ان کی زبان بھی کچھ فاتح قوم کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ہمیں انگریزوں سے آزادی حاصل کیے ستر سال بیت گئے

لیکن ہم ابھی تک انگریزوں کی زبان انگریزی کے غلام ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے فورا بعد ہم زنگریزی کے چنگل سے آزاد ہو کر اپنی قومی زبان اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنا دیتے جیسے کہ اکثر آزاد اقوام کا شیوہ رہا ہے مثلا بھارت کی مثال لے لیجئے جہاں 179زبان اور 544بولیاں بولی جاتی ہیں جو ہندی سے مختلف ہیں ۔ہندی کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے تحریکیں چلیں اس کے باوجود بھارت نے ہندی کو دفتری زبان بنا لیا اسرائیل نے 5مئی 1948ء کو اپنے قیام کے فورا بعد عبرانی زبان کو سرکاری زبان بنا لیا اسی طرح چین نے ہم دو سال بعد آزادی حاصل کی مگر اپنے قیام کے فورا بعد چینی زبان کو سرکاری قرار دیا لیکن ہم اپنی زبان کے بارے میں کیوں اتنی احساس کمتری کا شکار ہیں کہ آئین بناتے وقت بھی اس کے نفاذ کے لیے ایک طویل مدت کی مہلت طلب کرتے ہیں 1956

کے آرٹیکل میں ہر صورت دس سال مقرر کی گئی اس پر ستم ظریفی یہ کہ جب مدت ختم ہوجاتی ہے تو مختلف بہانوں کا سہارا لے کر نفاذ اردو کا معاملہ پھر التوا میں ڈال دیا جاتا ہے پاکستان کے موجودہ 1973کے آئین میں آرٹیکل 251میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا اور یہ طے کیا گیا پندرہ سال کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر امور میں استعمال کرنے کے لیے انتظامات کیے جائیں گے.اس لحاط سے 1988ء تک اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کو درجہ مل جانا چاہیے تھا گزشتہ 28سالوں سے ہم نے آئین کی اس شق پر عمل نہ کر کے مسلسل آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں اردو کو اپنانے اور اسکی حفاظت کا دعوی اور وعدہ بہت پرانا ہے تحریک پاکستان کے تمام نعرے اردو میں تھے۔مسلم لیگ کے قیام کے روز ہی تیس دسمبر 1906ء بمقام ڈھاکہ اردو زبان اور فارسی رسم الخط کی حفاظت کرنا مسلم لیگ کے منشو رکا حصہ قرار دیا گیا

گویا اردو زبان کی حفاظت مسلم لیگ کا پیدائشی وعدہ ہے
بانی پاکستان اگرچہ خود اپنے مخصوص تعلیمی اور پیشہ وارانہ پس منظر کی بنا پر اردو کے مقابلے میں انگریزی استعمال کرنے میں سہولت محسوس کرتے تھے لیکن اس بات پر سختی سے قائم رہے کہ اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی لیکن ہماری بد قسمتی کی ان کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی اگر ان کی زندگی میں ملک کا دستور بن جاتا تو نفاذ اردو کا مسئلہ ہی اسی وقت حل ہو جاتا بعد میں کھوٹے سکوں نے بھی وفا کے تقاضے پورے نہ کئے اور ملکی و قومی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے نفاذ اردو جیسا اہم معاملہ معرض التوا میں ڈالے رکھا ۔قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں کئی ایسے مواقع آئے جب بانی پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کی بات کی

۔’’پاکستان مسلم انڈیا‘‘ کے دیباچے میں آپ نے تحریر فرمایا جہاں تک زبان کا تعلق ہے پاکستان کی سرکاری زبان اردو ،فارسی رسم الخط ہوگی ۔1942ء میں قائد اعظم نے حیدرآباد دکن میں تقریبا ایک لاکھ کے مجمع سے پینتالیس منٹ تک اردو میں خطاب کیا۔قیام پاکستان کے بعد 1948ء کے شروع میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں کچھ نوجوانوں نے شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان بنانے کے لیے مظاہرے کیے ان دنوں قائد اعظم بیمار تھے اس کے باوجود انہوں نے خود ڈھاکہ جانے کا فیصلہ کیا قاعد اعظم اپنی زندگی کا خطرہ مول لیتے ہوئے پرانے ڈیکوٹا طیارے میں سوار ہوئے اور سیدھے ڈھاکہ پہنچے انہوں نے اپنی دو تقریروں میں اردو زبان کی پاکستانی کی سرکاری زبان ہونے کی دو الفاظ میں بات کی اور فتنہ پردازیوں کو وقتی طور پر روک دیابعض محب وطن شخصیتوں نے عدالت عظمی کے ذریعے بھی حکومت کے اس غیر سنجیدہ طرز عمل کا احساس دلانے کی کوشش کی 1989ء میں سابق ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں نفاذ اردو کے لییدرخواست دی جو درخواست اس وقت کے چیف جسٹس نے خارج کر دی اور فیصلہ کی اشاعت پر بھی پابندی لگا دی گئی

اس کے باوجود ہر دور میں جد و جہد جاری رہی حتی کہ جناب کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی طرف سے دائر کردہ ایک اور درخواست پر 8ستمبر 2015کو سپریم کے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تشکیل کردہ ایک بینچ نے یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ اردو کو بلا تعطل سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے اس کے لیے تین ماہ کی مدت دی گئی اور اب تک کتنا عمل ہوا ؟سب جانتے ہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ کیا جا رہا ہے

سوال یہ پید ہوتا ہے کہ کب تک ایک مخصوص مٹھی بالائی طبقہ اور نوکر شاہی کے ذاتی مفاد کو قومی اور عوامی مفاد پت ترجیح دی جاتی رہے گی کیا ہمارے حکمرانوں پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ وہ قائد اعظم کے ارشادات ،موجود متفقہ آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے واضح حکم کے باوجود عملی طور پر کام کیا جائے اور اردوکو سرکاری حیثیت سے فوری نافذالعمل یقینی بنائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں