columns 106

یہ پاکستان ہے یا پاگل خانہ؟

آج سارے شواہد بتارہے ہیں کہ ہمارا ملک پاکستان خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن جن اداروں نے اس کو روکنا ہے اُن کواس کی کوئی پرواہ نہیں ہے فوج کی طرف سے بار بار یہ بیانیہ دہرایا جا رہا ہے کہ ہمیں سیاست میں مت گھیسٹو لیکن اگرگھسیٹنے والے ہی باز نہ آئیں تو چارہ گروں کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں فوج کتنی بار وارننگ دی گی پہلے بھی وہ کئی بار اعلان کر چکی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی واسطہ تعلق نہیں لیکن جب سیاسی پارٹیاں نام لے لے کر بلکہ نام بگاڑ بگاڑ کر ایسا ارتکاب کریں تو اس کا کیا مداوا کیا جائے گا؟ایساسب کچھ ہونے کے باوجود فوج کی قیادت کو کروڑوں بارسلام کہ وہ سب کچھ دیکھ اور سن کر جو تادیدانہ ردعمل ظاہر کر رہی ہے وہ نہایت ہی مہذبانہ ہے جب فوج کے ترجمان یہ کہیں کہ بعض سیاسی رہنماؤں کی طرف سے لگائے گئے الزامات نا مناسب ہیں تو واقعی فوج کے صبر کا یہ کڑا امتحان ہے آج سب سے بڑا چیلنج پاکستان کی حفاظت ہے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت فوج کی اولین ذمہ داری ہے اور وہ اس ذمہ داری کو بطور احسن نبھا رہی ہے کیا ہمارے سیاسی رہنمایہ سب کچھ دیکھ اور سن نہیں رہے ہیں؟اگر خدانخواستہ پاکستان کسی خانہ جنگی کی طرف بڑھتا ہے یا خرنریز مستقبل کی طرف جاتا ہے تو اس صورت میں ہمارے ملک کا کیا انجام ہو گا ہمارے سیاستدان اگر فوج کے جرنیلوں کا نام بگاڑتے ہیں یا اُن پر ناموں کی رعایت سے اپنے بیانئے کو زیادہ نمک مرچ لگا کر عوام کے سامنے رکھتے ہیں تو اپنی کم عقلی اور حماقت کا ماتم کرنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟پہلے عوام کو صرف دال روٹی کی فکر ہوتی تھی اب اسے خانہ جنگی کی باتیں سُننے کو مل رہی ہیں جرائم پیشہ لوگ تو ایسے دنوں کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں جب پاکستانی آپس میں دست و گریباں ہوں گے اور یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے گھرو ں میں گھسے ہوں گے یہ جرائم پیشہ لوگ نہ صرف اپنی خطرناک اور شرمناک حرکتیں پوری آزادی سے کر رہے ہوں گے بلکہ جب اس نوح کی انارکی پھیلتی ہے تو حفاظتی دستے اور گھریلوملازمین بھی اپنی دیرینہ حسرتیں پوری کرنے کے لئے اس لوٹ ما ر اور شرمناک حرکتوں میں شریک کار ہو جاتے ہیں معلوم نہیں وہ کون احمق لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب خانہ جنگی ہو گی تو وہ اپنے عشرت کدوں میں چین کی بانسری بجارہے ہوں گے اس لئے اپنے ہم وطنوں پاکستانی عوام سے درخواست کی جاتی کہ وہ بھڑکتے شعلوں کو ہوا نہ دیں یہ درست ہے کہ یہ شعلے اُن کے دامن تک نہیں پہنچیں گے دراصل یہ ہمارے ان ساتھیوں نے جو اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں یہ بات پاکستانی بھائیوں کو مخاطب کر کے کہنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے ان قوموں کی تاریخ شاید نہیں پڑھی جو انقلاب اور تبدیلی اور آزادی کے نام پر خونریزی کی طرف مائل ہوئے اور انقلاب اور تبدیلی تو نہیں آئی اور نہ ہی حقیقی آزادی کا کہیں نشان ملاالبتہ خودانہوں نے ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہمارا ملک مختلف اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور دشمن صرف اس انقلاب کا ہی منتظر نہیں بلکہ وہ تو امن کے دنوں میں بھی اس خطہ پاک کو نشانے پر رکھے ہوتا ہے اور اگر خدانخوستہ ہم خود اس کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں تو پھر ذرا سوچئے کہ کیا ہو گا؟اگر کسی ملک کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو تو قومی خقاق اوربدامنی کی صورت میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو خود کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد لوگ نال شب کو بھی ترس جاتے ہیں پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں

معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں دیکھنے والی آنکھیں آنے والے کل کے ہولناک مناظر ابھی سے دیکھ سکتی ہے آئی ایم ایف سے ایسے معاہدے کئے گئے ہیں کہ نہ صرف اُن سے واپسی ممکن نہیں بلکہ یہ سوا ہو کار ادارہ ہل من مزید کے نعرے لگا رہا ہے اس وقت سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے خدا کے لئے اپنے ملک کو ایسے برے انجام تک نہ پہنچائیں سیاست کوئی ممنوع امر نہیں ہے ہر پاکستانی کو اپنے نظریے کے مطابق سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرنے کا حق حاصل ہے مگر باہمی نفرت کی فضاپیداکرنا کہاں کی عقلمندی ہے اور جو رہنماہیں انہیں بھی مدبرانہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے اگر وہ قوم سے سلطان راہی کے انداز میں خطاب کریں گے اور دوسری طرف سے مصطفی قریشی جواب آں غزل کے طور پر ویسا ہی جارحانہ انداز اپنائیں گے بلکہ ان کے پیروکار بھی ہاتھوں میں گنڈاسے لئے سے کھڑے ہوں تو سوچیں کہ ملک کا کیا بنے گا خدا کے لئے پاکستانیوں کے ہاتھوں میں گنڈاسے نہ پکڑائیں علاوہ ازیں خطرناک صورتحال یہ بھی ہے کہ قومی اداروں کی اس برے طریقے سے کردار کشی نہ کی جائے اور ان سے وابستہ شخصیتوں پر گالم گلوچ کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ یہ سلسلہ نہایت ہی خطرناک ہے قومیں جب کسی بحران کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی نظر آتی ہے تو یہ ادارے ہی قوم کو صحیح پٹٹری پر ڈالتے ہیں بدامنی کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹر ول کرتے ہیں قانون کی تشریح عدالتیں کرتی ہیں ملکی صورتحال کی صحیح ترجمانی میڈیا کر تا ہے اور ان اداروں کو جب بے اثر کرنے کے لئے ان پر گھٹیاالزامات اور ان کی کردار کشی کا عمل شروع کر دیا جائے تو پھر اس انار کی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے جس کی طرف قوم کو لے جایا جا رہا ہوتا ہے اس وقت یہی کام بہت منظم طریقے سے ہو رہا ہے لیکن جو لوگ ایسا کر رہے ہیں اُن کی نیت شاید ملک کو تباہ و برباد کرنے کی نہیں ہے لیکن وہ خودپرستی کا شکار ہیں اور ان کے دلوں میں اپنی نام نہاد بڑائی کا خبط ہے ان کا خیال ہے کہ وہ ہیں تو ملک بھی ہے اگر وہ نہ رہے تو پھر ملک کی بھی کوئی گارنٹی نہیں بلکہ ان کا یہاں تک فرمانا ہے کہ ایسے ملک پر ایٹم بم گرادو اور اسے ختم کر دو ایسے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کی ضرورت ہے مگر کوئی پاگل کب یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاگل ہے وہ پاگل سمجھنے والوں کو پاگل اور نہ جانے کیا کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے بہر حال اس وقت ہمارا ملک کوئی نارمل ملک نہیں لگ رہا ٹی وی کھولیں اخبارات پر نظرڈالیں سوشل میڈیا دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہم کسی پاگل خانے میں رہ رہے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں