144

یہ ادب کا مقام ہے /ظہیر احمد چوہدری

گذشتہ دنوں مدینہ شریف حاضری کا شرف نصیب ہوا ۔ایک بار پھر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں صلاۃ و سلام اور دورد شریف کی سعادت نصیب ہوئی ،ان گناہگار آنکھوں نے سبز گنبدکے دیدار سے وضو کیا ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کیے ، رات کے پچھلے پہر مسجد نبوی ﷺ کی فضا پرسکون اور معطر ہوتی ہے ، رش کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ریاض الجنۃ میں آسانی سے جگہ مل جاتی ہے ، حضور ﷺ کے مصلائے امامت اور روضے کے درمیان والا حصہ جنت کا ٹکڑا کہلاتا ہے ۔ ڈرتے ڈرتے ریاض الجنۃ سے ہوتے لڑکھڑاتے قدموں سرکار ﷺ کے روضے کی جانب سفر کیا ۔بے شک آپ ﷺ کے در پہ حاضری ایک شہنشاہ کے دربار پہ حاضری سے بڑھ کر ہے ، کیونکہ دنیا کے بادشاہ کے آگے بے ادبی سے آپ کی جان کو خطر ہ ہے لیکن نبی ﷺ کے دربار میں بے ادبی سے آخرت کی تباہی بھی ہو سکتی ہے اور آپ کا ایمان بھی خطرہ میں پڑ سکتا ہے ۔بار بارخیال آئے کہیں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں عرض کروں کہ یارسول اللہ ﷺ ایک بار پھر یہ گنہگار در پہ حاضر ہے ، سرکار یقیناًمیں نافرمان امتی ہوں ،خود سر ہوں ، ضدی ہوں لیکن پھر وہیں کھینچا چلا آتا ہوں میری اور کوئی جائے پناہ نہیں اور ادھر سے اگرجواب آئے کہ ’’ تم کو کس نے بلایا ہے ؟ کیوں بار بار آتے ہو؟ ‘‘ تو سوچتا ہوں کہ پھر میں کہاں جاؤں گا، کس سے سفارش کراؤں گا لیکن قربان جاؤں رحمت للعالمین ﷺ کے رب پر اور رحمت للعالمین ﷺ پر کہ جیسے مجھے آواز آرہی ہو کہ تو نے صلاۃ و سلام پیش کر لیا ، ریاض الجنۃ میں نفل پڑھ لیے اور خوب گڑگڑا کر فضل مانگ لیا !یاد رکھو مدینہ اور مکہ میں تم کو اس لیے بار بار حاضری نصیب ہوتی ہے کہ تم ایک مجرم ہو اور تم اللہ اور رسول ﷺ کی نظر سے چھپ نہیں سکتے ، تمہارا رب ہر وقت تم کو Observe کر رہا ہے اور ہر وقت تم اس قادر ومختار کے احاطے میں ہو ، چل سجدہ کر ، ماتھا گھس ، ناک رگڑ ، گندے کپڑے اور گندے اعمال لیکر اگر سرکارﷺ کی دربار پہ آہی گئے ہو توچلوہم محبوب ﷺ کی محبت میں تم کو بخش دیتے ہیں ! تب میرے اوسان بحال ہوں اورمیں ہاتھوں میں دعا کا کاسۂ پھر سے اٹھا لوں کانپتے لبوں سے دعا کہ ’’ اے رب میں صرف آپ سے فضل مانگتا ہوں ، عدل نہیں ۔کیونکہ اگر آپ نے عدل کیا تو میں رسوائی کے سبب کہیں منہ نہیں دکھا سکوں گا۔مہربانی فرما کر فضل کا دروازہ کھول دیں ۔ مدینہ منورہ بھی مکہ مکرمہ کی طرح حرم شریف ہے اور مدینہ میں بھی جانوروں کا مارنا، ڈرانا، جھاڑیوں یا گھاس کا توڑنا، جھگڑا کرنا، حدود حرم میں غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکت کرنا، اور راستے میں پڑی چیزیں اٹھانا وغیرہ حرام ہیں ۔مکہ مکرمہ کی بہ نسبت مدینہ پرسکون شہر ہے، شہری شریف اور اایمان دار ہیں اور لوگوں کی عزت و احترام کرنے والے ہیں ، مدینہ منورہ میں ہمیشہ رحمت و سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ایک حدیث کے مطابق مسجد نبوی ﷺ میں ایک نماز کا ثواب دوسری مسجدوں سے پچاس ہزار گنا زیادہ ہے ۔مدینہ میں حاضری کے کچھ آداب ہیں جو کہ بلاشبہ حیات انسانی کے لیے ضابطہ اخلاق ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا قرآن شریف میں فرمان ہے کہ ’’ اے ایمان والو !اپنی اواز نبی ؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی ؐ کے ساتھ اونچی آواز میں بات کیا کرو ، جس طرح آپس میں ایکدوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے نیک اعمال سب برباد کردیے جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو ‘‘ (سورۃ الحجرات ۲۰)اس آیت کا مفہوم اور مطلب جو لوگ سمجھتے تھے انہوں نے نبیؐ کی عظمت اور تعظیم کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عثمانی دور میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر تعمیرات کی دنیا میں محبت ،عقیدت اور ادب کی معراج ہے ،ترکوں نے جب مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کا ارادہ کیا تو پہلے حافظ مرد اور حافظ عورتوں کو چنا او ر پھر ان کا نکاح کیا ،اورترکی کے سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا جس میں ان حفاظ کرام کو بسایا گیا ۔ان سے جو اولاد ہوئی انہیں بھی حکومتی سرپرستی میں حافظ بنایا گیا اور ساتھ ساتھ عمارت بنانے کا ہنر سکھایا اور ماہر کاریگر بنایا ۔دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رہا ۔پچیس سال کے بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں پروفیشنل تھے بلکہ حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھے ۔یہ لگ بھگ پانچ سو لوگ تھے اس دوران ترکوں نے پتھر کی چٹانیں دریافت کیں اور جنگلوں سے عمدہ قسم کی لکڑی کاٹی اور شیشے کی سلیں مدینہ پہنچائی گئیں ۔جب یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر میں پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اس سامان کو رکھنے کے لیے مدینہ سے بارہ کلومیٹر دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ پتھر کاٹنے اور مشینوں کی آوازسے نبی ﷺ کو تکلیف نہ ہو اور شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ہو ۔نبی کریم ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر کا کاٹنا پڑتا تھا یا ترمیم کی ضرورت پیش آتی تو اسے واپس اسی بستی میں بھیجا جاتا ۔ماہرین کو حکم تھا کہ ہر وقت باوضو رہیں اور کلام پاک کی تلاوت کرتے رہیں ، مسجد نبوی ﷺ ائیر کنڈیشنڈ ہے مگر آج بھی اس کا ائیر کنڈیشننگ یونٹ مسجد میں نہیں ہے بلکہ مسجد نبوی ﷺ سے سات کلو میٹر دور ہے اور پائپ لائن کے ذریعے ٹھنڈی ہوا مسجد میں لائی جاتی ہے تا کہ شور کی وجہ سے مسجد کا ماحول خراب نہ ہو ۔ہمارے استاد محترم قاضی احمد شاہ صاحب فرماتے تھے کہ مدینہ میں ادب کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کرامؓ کے سروں پر پرندے بیٹھے رہتے تھے اور وہ سر تک نہیں ہلاتے تھے کہ مبادا حضور ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو جائے ۔کبھی حضورﷺ کے چہرہ انور کو نظر بھر کر نہیں دیکھا اور آپ ﷺ کے دربار میں ادب سے ہمیشہ سر جھکائے رہتے ۔یہ سب ادب کی باتیں میرے ذہن میں بار بار آرہی تھی کہ ادب رسول ﷺ میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو دیکھی کہ لوگ مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں جمع ہیں اور اتنا اونچااونچا ذکر اور نعرے لگا رہے ہیں کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔کیا ہم یہاں ’’ لا ترتفعوااصواتکم فوق صوت النبی ‘‘کے معیار پہ پورا اتر رہے ہیں ؟کیا ہم محلے گاؤں میں مسجد کے چاروں سپیکرز سے لوگوں پر زبردستی کا اسلام مسلط نہیں کررہے ؟ہماری اکثریت اب بھی مسجدوں میں اونچا بولتی ہے اورسینسر ٹیکنالوجی مائیک کے دور میں بھی جب خطیب حضرات چیخ اور چلا کر تقریر کریں تو دکھ ہوتا ہے کہ ادب رسول ﷺ توہمیں نرمی اورشائستگی سے گفتگوسکھاتا ہے ۔ نہ جانے ہم ادب رسالت ﷺ میں کس مقام پہ کھڑے ہیں ؟ یہ سوال آپ سب کے سامنے رکھ رہا ہوں ، جواب آپ نے خود کو دینا ہے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں