یادرفتگان محمد اعظم احساس‘ باکمال شاعر 375

یادرفتگان محمد اعظم احساس‘ باکمال شاعر

دیکھا ہے آئینے کو پسینے میں تر بہ تر
یا رب حقیقتووں سے کوئی آشنا نہ ہو

ایسے خوب صورت شعر کہنے والے شاعر محمد اعظم احساس مرحوم1952 میں تحصیل کہوٹہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں پڑیکہ میں پیدا ہوئے تھے بچپن شفقتِ پدری سے محروم ہی گزارا کہ والد فوت ہو گئے تھے

کم عمری میں ہی غریب الوطنی نے انگلی پکڑ لی تھی غربت کے ساتھ یہ اکھ مٹکا کئی سال تک چلتا رہا تا آنکہ فیصل آباد سراجیہ اسکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاک آرمی جوائن کی

بڑے بھائی نے نہایت شفقت سے پرورش کی تھی اس لیے ان کے ذکر سے آنکھیں بھیگ جاتیں اسکول میں انگریزی کے استاد محمد اسلم کی یادیں ہمیشہ تر وتازہ رہیں جو انگریزی کے ساتھ ساتھ دنداسے اور سرمے سے بھی اتنی ہی محبت کرتے تھے۔

استاد کی محنت اور محبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں ملازمت کے دوران انگریزی میں ہی ایم اے کیا۔شاعری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ بہت کچی عمر میں ہی میرے ذہن کے کسی خفیہ دروازے سے داخل ہو گئی تھی

اپنا جیب خرچ بازار میں یوسف زلیخا سنانے والے کو دے دیا کرتا تھا وہ کہتے تھے ردیف و قافیہ کا اہنگ میرے دل کو ہمیشہ بھلا لگتا تھا۔ دورانِ سروس شاعری روٹھی رہی اور مجھے بھی منانے کی فرصت نہ تھی

اس دلربا کی نازبرداری کے لیے وقت نے فرصت ہی نہ دی البتہ جوانی ڈھلنے لگی تو روز ہی کچی عمر کی پکی محبتیں دروازے پر دستک دینے آ جاتیں ان کی اس آمد و رفت نے شعر بننے کا چسکا ڈالا۔وہ کہا کرتے تھے

کہ غالب اور فیض کو بہت شوق سے پڑھا ہے جدید شعرا ء میں اختر عثمان کے دلدادہ تھے ان کی لفظیات اور لسانی تشکیلات میں تتبع کی کوشش کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ ایک کیفیت طاری ہوتی ہے

تو شعر کہتا ہوں پھر کئی دن تک فنشنگ کرتا ہوں جب شعر چمک جاتا ہے اور لشکنے لگتا ہے تو احباب کو سناتا ہوں۔وہ کہا کرتے تھے کہ اچھا شعر صرف اداس موسموں میں اترتا ہے اور خوشی کے لمحات میں شعر نازل ہی نہیں ہوتا۔

ایک دن کہنے لگے جس شعر پر تحسین نہ ہو اسے بیاض میں نہیں رکھتا۔نثری ادب میں سعادت حسن منٹو ہی پر توجہ مرکوز رہی اور اسے سی بار بار پڑھا وہ بہت منفرد اور حقیقت آشنا افسانہ نگار ہے

اس کے ہاں مشاہدہ نوک قلم پر آتے آتے شاہکار بن جاتا ہے غلام عباس کی سادگی و پرکاری دل موہ لیتی ہے وہ کہا کرتے تھے ادب میں گروہ بندی نہیں ہوتی دراصل کچھ لوگ ادب کے نام پر اپنی خدمت کروانا چاھتے ہیں۔

وہ دوستوں میں قیوم طاہر علی راز اور شاکر کنڈان کا ذکر کرتے تھے اور اختر رضا سلیمی کا بہت احترام اور محبت سے نام لیتے تھے ایک دن کہنے لگے بس ایک حسرت لے کر دنیا سے جاؤں گا کہ میں ماں جی کی حسب دل خواہ خدمت نہ کر سکا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں