کئی حکو متیں گزریں کئی حکو متی منتخب نما ئندے ہو ں یا بیورو کریسی کے اعلی افسران کسی نے بھی اس اہم معاملے کی جانب خا طر خواہ توجہ نہ دی اور نہ ہی اسے سمجھنے کی کو شش کی کہ آخر کیا وجو ہا ت ہیں جس کے با عث خطہ کو ہسا ر مری و کو ٹلی ستیاں سمیت کہو ٹہ جو کہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل تینوں تحصیلوں کا ترقیاتی عمل شہروں کے مقابلے میں یہاں کیو ں متا ثر ہو تا ہے ایک عام ذہن رکھنے ولا شخص بھی اس با ت کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر ایک مکا ن کی تعمیر شہر میں کر نی ہو تو اس کا جو تخمینہ لگا یا جا تا یا کنٹر یکٹر کو جو ریٹ شہروں میں دئیے جا ئیں اسی تخمینہ یا ریٹ کیمطابق اگر ان پہا ڑی علاقوں میں مکان کی تعمیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے بلکہ شدید دشوار ہو جاتی ہے مگر بد قسمتی سے ان تینوں پہا ڑی تحصیلو ں میں کا م کرنے والے کنٹریکٹر کو جو کا م دیے جا تے ہیں انہیں ایک ہی ریٹ کیمطا بق یعنی پو رے پنجاب کے ریٹ کیمطابق دیے جا نے سے سب سے پہلے تو یہاں پر کو ئی کنٹریکٹر کام کے لیے آما دہ ہی نہیں ہو تامگر منتخب نما ئندے ہو ں یا عوام علاقہ میں سے بعض مقتدر شخصیا ت جنکی منت سما جت سے اگر کو ئی کنٹریکٹر کسی منصوبے پر کا م شروع بھی کر دے تو یا تو وہ کام جسے ایک سال میں مکمل ہو نا ہو وہ کئی سالوں تک چلا جا تا ہے یا پھر کنٹریکٹر (Re estimate) کے چکر میں پڑے رہتے اگر ان سے یہ بھی ممکن نہ تو کنٹریکٹر اسی منصوبے میں کا م کی کوالٹی کو بری طرح تبا ہ و بربا د کر دیتے ہیں اور معیاری کا م نہ ہو نے سے قومی خزانے کا ضیا ئع ہو تا ہے ۔
2003 ء میں تمام ترقیاتی کا موں کے تخمینہ جا ت 1998کے شیڈو ل آف ریٹ کیمطا بق بنا ئے گئے تھے جس پر کنٹریکٹر تنظیموں کے ٹینڈر بائیکا ٹ کر نے سے تما م ترقیاتی کام بند کر دئیے گئے جس پر اس وقت اور مو جودہ وقت کے صوبا ئی وزیر قانو ن محمد بشارت راجہ نے کنٹریکٹر تنظیموں سے رابطہ کر کے انکی وزیر اعلی پنجاب چو ہدری پرویز الہی سے ملا قات کروائی جس کے بعد وزیر اعلی پنجاب چو ہدری پرویز الہی اوراور صوبا ئی وزیر قانو ن محمد بشارت راجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں سیکرٹری تعمیرات ،و مواصلا ت اور سیکرٹری محکمہ خزانہ کے علاوہ کنٹریکٹر تنظیموں کے نما ئندوں کو شامل کیا گیا مذکو رہ کمیٹی نے طویل غور و غو ض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ محکمہ تعمیرا ت پنجاب ما رکیٹ ریٹ پر محکمہ فنا نس کو بھیجے گا اور اسکے بعد محکمہ فنا نس ہر ما ہ یہ ریٹ ویپ سائٹ پر جا ری کریں گے شرو ع میں ہر ما ہ یہ ریٹ جا ری ہو تے رہے بعد مین ہر تین ما ہ بعد یہ ریٹ جا ری ہو تے رہے اور اب ہر 6ما ہ بعد یہ ریٹ جا ری ہو تے ہیں مگر پنجا ب کی تین پہا ڑی تحصیلوں کو ٹلی ستیاں ، مری و کہوٹہ میں یہ ریٹ ما رکیٹ کیمطا بق نہ ہیں جس طرح لا رنس پو ر کی ریت 60 روپے فٹ دستیاب ہے جبکہ مارکیٹ ریٹ 20رو پے فٹ ہے اسی طرح کریش ما رکیٹ میں80رو پے میں ملتی ہے جبکہ ما رکیٹ ریٹ جو ویپ سائیڈ پر جا ری ہوتے ہیں اس میں 30روپے فٹ ہے سیمٹ اور اینٹ کے ریٹ بھی بہت کم ہیں حا لا نکہ مری و کو ٹلی ستیاں میں کو ئی بھٹہ خشت اور نہ ہی کریش پلا نٹ مو جود نہ ہے۔
کریش ریت اور اور اینٹ راولپنڈی اور ما رگلہ سے لیکرآتے ہیں مارکیٹ ریٹ کم ہو نے کیوجہ سے ترقیاتی سکیمیں لٹکی رہتی ہیں کوئی بھی سکم وقت پر مکمل نہیں ہوتی اگر ہوتی بھی ہے تو اس میں کام چوری کا ندیشہ ہو تاہے سکیمیں اول تو ٹینڈرنگ پراسس سے ہی نہیں گزرتی اگر کسی کنٹریکٹرکو زبردستی کام دلوایا جا ئے تو وہ رئنگ رئنگ کے اس کا م کو مکمل کر تا ہے عوام علاقہ اور کنٹریکٹرز نے منتخب نمائندوں اور وزیر اعلی پنجان سے اپیل کی ہے کہ وہ ان پہاڑی تحصیلوں میں ترقیاتی منصوبوں کو آسان بنا نے کے لیے مٹریل ریٹ کوٹلی ستیاں،مری اور کہوٹہ کی مارکیٹ کے عین مطابق جاری کر نے کے لیے احکامات جاری کریں
102