بارہویں صدی عیسوی کے اختتام پر سالباہن ثانی پسر جیسل بھٹی تخت نشین ہوا جسکا زمانہ 1200 عیسوی کا ہے اسکے بعد مغلوں کے حملے شروع ہوگئے 1398 میں تیمور نے دہلی اورجیسلمیر پرحملہ کیا اکبر کی وفات کے بعد 1605میں اسکے بیٹے جہانگیر نے بھٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کیا اور پھانسی کی سزا سنائی تاہم بزرگ شاہ حسین کی درخواست پر پھانسی کی سزا معاف کر کے انکی علاقہ بدری کے احکامات جاری کیے۔
راولپنڈی چکوال تلہ گنگ کے مختلف دیہات میں بھٹیوں کو آباد کیا گیا کلیال بھٹی قبیلے کے لوگوں کی آباد کاری گھگڑ سلطان مقرب خان کے دور میں کی گئی کیونکہ جہانگیر کے دور میں سلطان مقرب خان کی اس علاقے میں عملداری قائم تھی موضع اراضی خاص کے قدیمی دیہی ابادی کے شجرے میں کلیال بھٹییوں کی اس علاقے میں آبادی کاری سلطان مقرب خان کے دور ہوئی ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اس دور میں قحط کی وجہ سے بڑے بڑے گاؤں ویران ہو گئے تھے تنگدیو جہلم سوہاوہ کے گردونواح سے کلیال بھٹییوں نے نقل مکانی کی گزشتہ تحریر میں گاؤں چھپر میں آباد کلیال بھٹی قبیلے کے جدامجد بہادر خان المعروف پہاڑ خان کا ذکر کیا گیا تھا آج کی تحریر کا آغاز وہی سے ہوتا ہے رائے بہادر خان المعروف پہاڑ خان کی آخری آرامگاہ تندیو ایسراں میں ہے ۔
راقم نے وہاں جا کر انکی قبر پر حاضری و فاتحہ خوانی بھی کی ہے انکی قبر پر پہاڑ بادشاہ کے نام کی تختی بھی لگی ہے چونکہ اب وہاں کلیال قبیلے کا کوئی نام ونشان نہیں اسلیے بہادر خان المعروف پہاڑخان کی حالات زندگی کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں البتہ پہاڑ خان کووہاں کی گردونواح کی ابادی نے ولی اللہ کا درجہ دے رکھا ہے اور ہرسال انکے عرس کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں تحقیق کے مطابق راجہ دوسل بھٹی کی انتیسویں پشت کے نیچے اور قبیلہ کلیال کے بانی کالوخان کی نویں پشت نیچے بہادر خان کا نام آتا ہے مشہور تاریخ دان اور کئی تاریخی کتابوں کے مصنف انجم شہباز نے اپنی تصنیف کردہ کتاب اقوام پنجاب میں لکھا ہے کہ بہادر خان کے چھ بیٹے تھے جن میں سے ایک عظت خان اراضی تھپر میں جا کر آباد ہوئے یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ دور کے لوگ گاؤں اراضی خاص کو اراضی چھپر کے نام سے پکارتے ہیں اور بزرگوں کی زبانی عظمت خان موجودہ گاؤں چھپر نہیں بلکہ اراضی پنڈ میں آکر آباد ہوئے تھے انجم شہباز کی کتاب اقوام پنجاب میں پہاڑخان کا مختصر شجرہ میں انکے چھ بیٹوں کا ذکر ہے تاہم تاریخ پر دسترس رکھنے والے اویس حسین جنکا تعلق آزاد کشمیر کے موضع پنڈ خورد سے ہے وہ ولایت میں مقیم ہیں راقم کا اس حوالے سے ان سے معلومات کا تبادلہ ہوا انکے بقول کشمیر میں کلیال بھٹییوں کے بہت سے گاؤں ہیں جن میں کلیال چکسواری پوٹھہ کلیال ڈھیری پھل چکسواری موہڑہ پنیام پلاک اور پلتھی موضع کھڑڑی شامل ہیں جہاں کلیال بھٹی اکثریت میں آباد ہیں جس سے اس تحقیق کو تقویت ملتی ہے کہ ماضی میں کلیال بھٹی تنگدیو جہلم اور سوہاوہ سے نقل مکانی کر کے میرپور کے گردونواح میں جا کر ضرور آباد ہوئے تاہم جب اویس حسین سے پہاڑ خان کے شجرہ کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ ہوا تو میری اور انکی تحقیق میں خاصا خلا پایا جاتا تھا اویس حسین کی تحقیق کے مطابق پہاڑخان کے چھ پیٹے تھے جن میں سے واحد نام بشارت خان ہے۔
جنکا نام تاریخ دان انجم شہباز کی کتاب میں پہاڑ خان کے شجرے میں ان کا بیٹا درج ہے جبکہ باقی پانچ بیٹوں کے نام انکے شجرے میں موجود بیٹوں کے ناموں سے مماثلت نہیں رکھتے پہاڑخان کے والد کا نام مرادخان تھا اور انکے تین بیٹے تھے پہاڑ خان نادرخان اور سوارخان اویس خان کی تحقیق اور معلومات کے مطابق پہاڑخان کی آل اولاد موضع گڈیری میرپور میں آباد ہے جن میں عظمت خان کے نام کے بیٹے کا وہاں کے شجرے میں کوئی ذکر موجود نہیں جبکہ قدیمی شجرے 1883/84 قانون گو دفتر راولپنڈی کے مطابق موضع اراضی خاص میں آباد کلیال قبیلے کے شجرے میں عظمت خان کا نام بظاہر درج نہیں ہے اس شجرے کی ابتدا واصل نام کے شخص سے ہوتی ہے اور اگر تحقیقی پہلوؤں پر نظر ثانی کیجائے تو عرف عام میں واصل اور حقیقی نام سوار خان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ موضع اراضی خاص میں آبادکلیال قبیلے کے قدیمی شجرے میں سوار خان کا نام درج ہے جبکہ عظمت خان کا نام بظاہر مرکزی شجرے میں کہیں نہیں ملتا البتہ اس قدیمی شجرے میں سوارخان کا بیٹا اعظم خان درج ہے قرین قیاس یہی ہے کہ اس دور میں اعظم خان کو عرف عام میں عظمت خان کے نام سے پکارا جاتا رہا ہو اگلی تحریر میں موضع اراضی خاص میں آباد کلیال قبیلے سے کس نام کے بزرگ گاؤں چھپر میں آباد ہوئے تھے اور اب انکی کون سی آل اولاد چھپر گاؤں میں آباد ہے تحریر کا تسلسل اور بقیہ حصہ پنڈی پوسٹ کے اگلے ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ۔