پنجاب حکومت نے صوبہ بھر کے طول و عرض میں سڑکوں کے جال بچھا دیے ہیں ہر گاؤں کے چھوٹے بڑے راستے پختہ کرنے کا عزم لیے ہوئے حکومت ترقی کی جانب رواں دواں ہے ۔ NA-52 بالخصوص تحصیل کلرسیداں اور راولپنڈی میں بھی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثا رعلی خان کی طر ف سے اربوں روپے کے فنڈ کی فراہمی سے سڑکیں بن گئیں پل اورآبنوشی سکیمیں بھی لگائی جا رہی ہیں میٹرو بھی بن چکی مگر کسی بھی ملک کی ترقی کی اصل روح اور شہ رگ تعلیم جیسے شعبہ پر توجہ نہ دینا اور توجہ مبذول کروانے پربھی نوٹس نہ لینا حکومتی اہلکاروں کی بد دیانتی اور بے حسی ہے ہماری نسلوں کی تعلیم اور تربیت اور ملکی ترقی پر ایسا وار ہے جس کی ضرب کاری سے شاید ہی کوئی بچ سکے گور نمنٹ سیکٹر کی بات کریں تو ان کی نااہلی اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی بدولت نجی شعبہ نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور اتنی ترقی کی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب لوگ سرکاری سکولوں کا راستہ بھولنے لگے جس کی دوسری وجہ کسی بھی دور حکومت میں کوئی جامع تعلیمی پالیسی نہ بنا نا اور اس سے چشم پوشی کرنا ہے جب نجی شعبہ نے تعلیمی انقلاب بھرپا کرنا شروع کیا تو اہل علم و دانش نے بھی ہوش کے ناخن لیے اور پھر گورنمنٹ سیکٹر میں جزا اور سزا کا عمل تیز ہوا ۔ چیک اینڈ بیلنس کے رواج کو فروغ دیا گیا ۔ نئی نئی بھرتیاں کی گئیں سکولوں کو ماڈل بنایا گیا ۔داخلہ مہم شروع کر کے طلبہ کی تعداد میں اضافہ بھی کیا گیا ۔مگر آج بھی چند علاقوں میں سرکاری سکول بھوت بنگلوں سے کم نہیں ہیں ۔ کسی میں بھوسہ رکھا گیا ہے ۔کسی کی چار دیواری نہیں ہے تو کوئی دروازے سے محروم ہے ۔کسی میں سٹاف نہیں ہے تو کسی جگہ گپیں لگا کر نوکری اور زندگی کے دن پورے کیے جارہے ہیں تو بھلا کیا فائدہ ہو ا ما نیٹرنگ مانیٹرنگ کھیلنے کا ۔اگر مانیٹرنگ ٹیم کے کسی سکول میں پہنچنے سے پہلے اُس کی آمد کی پیشگی اطلاع اور چیک کیا جانے والا سلیبس متعلقہ سکول اساتذہ کو بتاد یا جاتا ہے ۔تو پھر یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔مستقبل کے ان معماروں اور ملک کی تعلیمی سرحدوں کے ان محافظوں کا قیمتی وقت یوں ہی ضائع ہوتا رہا اور ان کے مستقبل سے کھلواڑ کر نے والے عاقبت نا اندیشوں کو چن چن کر بے نقاب نہ کیا گیا تو ہمارا تعلیمی مستقبل کیا ہو گا اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے آج بھی سکولوں میں نقل کا رجحان ختم نہ ہو سکا میاں نواز شریف نے تو اپنی انتخابی مہم میں تعلیم کو عام کرنے اور آئندہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلا ن کی تھا تو کیا ایسا کوئی نظام متعارف کروایا گیا یا ایسی اصلاحات نافذ کی گئیں سب گفتار کے غازی ہیں پچھلے دنوں گورنمنٹ پرائمری سکول چھپری اکو کی شکایت سامنے آئی جس میں والدین کی جانب سے موجودہ تعلیمی سال کا سلیبس شرو ع ہی نہ کرائے جانے پر محترم اساتذہ نے موقف اختیار کیا کہ ہم کتابوں سے پڑھاتے ہی نہیں ہیں ۔بلکہ موبائل فون پر ہمیں دفتر کی جانب سے میسج دیا جاتا ہے کہ مانیٹرنگ ٹیم نے فلاں سلیبس چیک کر نا ہے ہم وہ تیار کرا دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر مرکز چوکپنڈوری محمد اعظم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کوئی میسج سسٹم محکمہ تعلیم میں تاحال رائج نہیں ہو سکا ہے یہ متعلقہ اساتذہ کی طرف سے کام نہ کرنے کا کوئی عذر ہی ہو سکتا ہے یہ خبر شائع ہونے کے بعد اسٹاف کی دوڑیں لگ گئیں اور ان کے عزیز اقارب نے راقم پر سیاسی اور سماجی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا اس کی اطلاع EDO ایجوکیشن راولپنڈی کو بھی دی گئی مگر تاحال کوئی نظر ثانی نہ ہوئی جو کہ EDO ایجو کیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔وزیر اعلی پنجاب اور وفاقی وزیر داخلہ کی قیادت میں پنجاب نے بہت ترقی کر لی ہر شعبہ میں بہت کام ہو چکے بہت سڑکیں بن گئیں ۔اب ذرا توجہ ہماری نسلوں پر بھی دی جائے اور اُن کو جہالت کے اندھیروں میں جانے سے بچا یا جائے ۔اور ہمارے سکولوں کی حالت زار پر رحم کیا جائے تحصیل کلرسیداں میں پوسٹ گریجویٹ کالجز کا قیام اورروات کے علاقہ میں یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کی ضرورت اور مطالبہ بھی زور پکڑ رہاہے جو صرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثا رعلی خان کی مرہون منت ہے اور اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ محکمہ تعلیم کلرسیداں کے افسران سے باز پُرس کی جائے یاد رکھیے کے ستاروں پر کمند ڈالنے والے اقبال کے ان شاہینو ں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے ترقی کی نئی منازل اُس وقت تک نہیں دکھا ئی جاسکتیں جب تک ہماری صفوں میں چھپی کالی بھیڑیں اور میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار زندہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ تعلیم کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے جو نامساعد حالات غیر تربیت یافتہ اسٹاف اور کم تعلیم کے حامل اساتذہ کم اعزازیہ پا کرکارکردگی میں حکومتی مشینری کے مقابلہ میں ہمیشہ دو قدم آگے ہی دیکھے گئے ہیں ۔ گورئمنٹ اسا تذہ اور افسران میں اکژیت اپنی کو تائیاں چھپانے کے لیے نجی شعبہ پر بے جا تنقید کرنے کی بجائے اپنی اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوں چوہدری نثا رعلی خان آپ کی کارکردگی کا میں ہی کیا دشمن بھی معتر ف ہیں اس ملک کو آپ جیسے نمائندہ کی ضرورت ہے ۔آپ لاکھ مصروف سہی مگر خدارا ء ایک نظر ادھر بھی کریں ۔ -{jcomments on}03015279047
101