121

کرپشن کے خاتمے تک

راجہ طاہر محمود

کرپشن ،کرپشن ،کرپشن یہ وہ الفاظ ہیں جن کا چرچا گزشتہ پانچ سالوں میں کچھ زیادہ ہی سننے کو مل رہا ہے اس کی بنیادی وجہ کرپشن کے بارے میں اٹھائی جانے والی وہ اواز ہے جو اب عوامی شعور کے آئینے میں فٹ آتی نظر آ رہی ہے اس کرپشن کو زبان زد عام کرنے میں اگر کسی جماعت کو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے کریڈٹ دیا جائے تو وہ پی ٹی آئی ہے مجھ سمیت ہر پاکستانی یہ جاننے کی جستجو میں ہے کہ کہ کیا واقعی ہی ہمارے حکمران ہمارے دیے گئے ٹیکسوں کی پیسے اپنی جیبوں میں بھر کر بیرون ملک ٹرانسفر کرتے اور کرواتے ہیں اور کیا یہ پیسہ واقعی ہی عوام کا پیسہ ہوتا ہے؟ اور کیا اس پیسے کو اگر پاکستان میں خرچ کیا جائے تو پاکستان ناصرف ایشیاء بلکہ پوری دنیا میں ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے ملک میں کرپشن کی سطح بہت تشویش ناک ہے ناصرف شخصیات بلکہ اداروں کے سربرہان بھی اس میں ملو ث ہو رہے ہیں ہزاروں سے کا منصوبہ لاکھوں تک کیسے پہنچ جاتا ہے کوئی پرسان حال نہیں اگر کسی سے اس کے عیش و عشرت کا پوچھ بھی لیا جائے تو جمہوریت خطرے میں چلی جاتی ہے ،چاچے ،مامے اور کہاں کہاں کے رشتے سامنے لا کر گلو خلاصی کروا لی جاتی ہے یہ سبب سسٹم کی کمزوری ہے وہ ادارے جن کا کام ہی اس ناسور کاخاتمہ کرنا ہے وہاں کرپشن اور مس منیجمنٹ کی بڑھوتری دیگر اداروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے تو جناب جب دودھ کی رکھوالی بلا کرئے گا تو دودھ کو بچائے گا کون کیا بلا بچائے گا ہاں ایک صورت میں بلا بچا سکتا ہے اگر اس کا پیٹ بھر گیا ہو مگر یہ دولت ہے جناب اس سے پیٹ تب تک نہیں بھرتا جب تک اس پیٹ کو خاک سے نہ بھر دیا جائے اس دھرتی ماں کے ساتھ دھوکہ کرنے والا نہ اس دنیا میں سرخرو ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں اوپر سے ہمارے حکمران قربان جاؤں ان کی سادگی پر جن کے بیانات تو سنیے کہتے ہیں اتنی بدعنوانی ہے کہ تحقیقات کرنے لگیں تو سارے کام رک جائیں کرپشن کے اتنے سیکنڈل ہیں جتنا کہا جائے کم ہے ملک میں بہت سے معاملات ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہیے اگر تحقیقات شروع کر دی تو ہمارا سارا وقت اسی میں لگ جائے گا بقول ان کے ایک وقت آئے گا جب کرپشن کرنے والے لوگ اپنے انجام کو پہنچیں گے ہم نے بیس سال پرانے منصوبوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا کسی منصوبے کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیازرا ان سے پوچھ ہی لیا جائے کہ جناب اس منصوبے کا فائدہ کیا جو لاکھوں سے کروڑوں اور بعد ازاں اربوں سے مکمل ہو موجودہ حکومت کے اس وقت کو شاید کوئی بھی قبول نہ کرے کہ بدعنوانی کی تحقیقات میں غیر معمولی وقت ضائع ہوتا ہے اور تعمیر و ترقی کے سارے کام رک جاتے ہیں یا کرپشن کے سیکنڈلز کے خلاف تحقیقات حکومتی وقت کے ضیاع کا باعث ہوتی ہے۔ گڈگورننس میں اس بات کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے کہ ملک میں ہر سطح پر کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اس قسم کی کارروائی ہی منصوبوں کے معیار کی بہتری اور شفافیت کا باعث ہوتی ہے اور معاشرے میں میرٹ اور صلاحیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے بدعنوانی کی موجودگی میں کبھی گڈ گورننس قائم نہیں ہوسکتی ایسے میں سڑکیں’ پل اور تعمیرات غیر معیاری اور ناقص ہوتی ہیں اور قومی خزانے کا ضیاع ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر درست نہیں کہ بدعنوانی کے خلاف تحقیقات کے باعث ترقیاتی عمل متاثر ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں وقت ضائع نہ کیا جائے یہ نقطہ نظر حقائق سے بہت دور اور مضحکہ خیز ہے تمام جمہوری ملکوں میں کرپشن کے خلاف احتساب کا عمل کام کرتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں تعمیر و ترقی کے منصوبے متاثر نہیں ہوتے تعمیر و ترقی پر مامور ادارے اپنا کام کرتے ہیں اور کرپشن کے خلاف احتساب کرنے والی مشینری الگ سے اپنا کام جاری رکھتی ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ احتساب کے خوف سے تعمیر و ترقی کے عمل میں تیزی اور شفافیت آتی ہے تو بیجا نہ ہو گاضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن بد عنوانی اور مس منیجمنٹ کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں لیکن یہ عذر نہیں تراشنا چاہیے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات پر وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں منصوبوں کی بروقت تکمیل متاثر ہوتی ہے کسی بھی جواز کے تحت بدعنوانی کے خلاف کارروائی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتایہ ایسا ناسور ہے جس سے ملکی ترقی تو کیا ملکی بقاء کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہیں اور یہ کاروائیاں سیاسی وابستگی سے بالا تر ہونی چاہے تاکہ کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ شکایت نہ وہ کہ اس کے خلاف کی جانے والی کاروائی جانبدار ہے ہمیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کرپشن کے خاتمے میں ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل کا حل پوشیدہ ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں