210

کامیابی کا سفر

زندگی میں ایک بات مشاہدہ میں آئی کہ ترقی اکثریت غریب والدین کی اولادوں کا مقدر بنی جنھوں نے جدوجہد کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ مسلسل محنت وصلاحیت کے بل بوتے پر شروع ہونے والا ترقی کا سٖفر ذات خاندان معاشرہ سے ہوتا ہوا ملکی پھر بین الاقوامی سطح پر پہنچ کر دنیا بھر میں کامیابی کا شور مچا دیتا ہے

یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ باری تعالیٰ کی ذات زندگی کے اس سفر میں ہر انسان کو کامیاب ہونے، ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا موقع ضرور فراہم کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ بروقت فیصلوں سے فائدہ اٹھاکر کامیاب ہوکر دنیا میں امر ہوجاتے ہیں اور بعض اس کو موقعکا لالچ اور دھونس دھاندلی کی نظر کرکے ہمیشہ کے لیے خوار ہوکر رہ جاتے ہیں چونکہ کامیابی نیک نیتی اور ایمانداری کا راستہ اپنانے والوں کا مقدر بنتی ہے شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کرنے والے جلد یا بدیر بے راہ روی کا شکار ہوکر منزل سے ہٹ جاتے ہیں

کامیابی و ناکامی کے بارے میں تہمید کا مقصد ایک فرد کی کامیابی کی داستان بیان کرنا ہے جو میرا کالج فیلو تھا لیکن وقت کے بھنور نے ایسا گھمایا کہ پچیس برس ہم ایک دوسرے کو نہ مل سکے لیکن آج ہم کھانے کی میز پر اس وقت اکٹھے ہو گئے جب میں اپنے ایک دوسرے دوست کے ہمراہ ریسٹورینٹ میں کھانے کا آڈر دیکرکھانا تیار ہونے کے انتظار میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے کہ لگژری گاڑی سے ایک صاحب اترے اور انتہائی سادگی سے میرے سامنے والے ٹیبل پر آکر بیٹھ گئے میری نظر سے مجھے ایسے لگا یہ میری جان پہچان کی کوئی شخصیت ہے میں نے پہچاننے کی کوشش کی لیکن ان کی یادداشت زیادہ اچھی تھی پہچاننے میں پہلے کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ آپ عبد الخطیب ہیں؟ میں نے کہا جی بالکل!اس دوران گرم جوشی سے ملے

۔چونکہ ہم نے گریجوشن ایک ڈیسک پر بیٹھ کی تھی اس لیے میں ان کے مالی حالات سے بخوبی آگاہ تھا لیکن آج ان کی لگژری گاڑی اور انتہائی مودبانہ شخصیت دیکھ کر میں خود حیران رہ گیا ایک ہی ٹیبل پر کھانے کی آفر کی جو انہوں نے خوشی سے قبول کرلی بات چیت میں مصروف ہوگئے میں نے ان کے حالات زندگی بارے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے پہلے ایک لمبی آہ بھری! پھر یک دم خوشی سے بولے آپ کو پتہ ہی ہے کہ کالج کے زمانہ میں ہمارے گھریلو حالات انتہائی کمزور تھے میں نے گریجویشن کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کے لیے درخواست دی

تو انہوں نے اس بنیاد پر قبول کرلی کہ آپ کو انٹرشپ پر ٹرینی کے طور پر چار ماہ مفت میں کام کرکے مہارت حاصل کرنی ہوگی اس کے بعد تنخواہ کا سلسلہ شروع کیا جائے گا چارماہ بعد پہلی تنخواہ تین ہزار روپے ملی تو خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا اس عزم کے ساتھ ہی ساری تنخواہ اپنے غریب عزیز واقارب میں تقسیم کردی کہ اس کے متبادل اللہ غیبی مدد کریگا دوسری تنخواہ والدہ محترمہ کے ہاتھ میں دی میں دفتر بروقت پہنچنے کے لیے نماز فجر سے قبل ہی گھر سے نکلتا تاکہ میں زیادہ محنت سے کام میں نکھار لا کر کمپنی کے فائدے کے لیے کچھ کرسکوں شاید اس کو دیکھتے ہوئے میری سیلری میں بھی اضافہ ہوجائے لیکن اضافہ تو کجا اگلے ماہ کی تنخواہ ایک ماہ کے لیے لیٹ ہوگئی

پھر لیٹ ہوتے ہوتے چھ ماہ گزر گئے حتی کہ ایک دن کمپنی کے مینیجر نے میٹنگ کے بعد حکم صادر کیا کہ سٹاف فالتو ہونے کی وجہ سے تنخواہیں پوری نہیں ہو پا رہی ہیں لہذا چھانٹی کی جارہی ہے واجبات بعد میں جلد از جلد ادا کیے جائیں گے چھانٹی میں میرا بھی نام آگیا ہے اور بغیر تنخواہ سے فارغ ہوگیا مجھے یاد ہے انتیس رمضان المبارک کو اطلاع ملی کہ فارغ کیے گئے ملازمین کے واجبات ادا کیے جارہے ہیں میں بھی خوشی خوشی شام کے وقت دفتر پہنچا کہ تنخواہیں ملنے پر عید اچھی گزر جائے گی لیکن یہ اطلاع بھی جھوٹ کا پنڈورہ ثابت ہوئی

ادھرعید کے چاند کے نظر آنے کا اعلان ہوچکا تھا لوگ خوشیاں منارہے تھے جب کہ میں گھر واپسی کے لیے بس کی پچھلی نشت پر بیٹھا دل ہی دل میں رو رہا تھا میری آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں سے میرا چہرہ تر ہوچکا تھا یہ وہ وقت تھا جب میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ کسی صورت ملازمت نہیں کرنی بلکہ اپنا کام شروع کرکے ہی اپنا نام و مقام بنانا ہے لیکن غریب انسان کے لیے بھی اپنا کاروبار شروع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے عید کا ایک ہفتہ گزارنے کے بعد میں نے کاروبار کے لیے سوچنا شروع کیا لیکن اس کے لیے اچھی خاصی رقم کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے

اس کے لیے میں اپنے والد اور والدہ کے تین قریبی اور امیر رشتے داروں سے قرضہ حسنہ مانگا تو انہوں نے کہا کہ آپ کام کی منصوبہ بندی کریں ضرور مدد کرینگے میں نے خوشی خوشی کاروبار شروع کرنے کے لیے انتظامات شروع کیے جب رقم کی ضرورت پڑی تو پہلے رشتے دار کے پاس گیا تو انہوں کہا کہ بیٹا آپکی ضرور مدد کرتا لیکن میرے پاس جتنی بھی فالتو رقم تھی بممشکل پوری کرکے ایک زرعی ٹریکٹر خرید لیا ہے اس لیے میری طرف سے معذرت قبول کریں لیکن میں پریشان نہ ہوا دوسرے رشتے دار سے رابطہ کیا تو ان کا جواب بھی پہلے کی طرح ملتا جلتا ملا کہ گھر میں پانی کی شدید قلت تھی ہم نے کنواں کھدوا لیا ہے مجھے تیسرے رشتے دار پر قوی امید تھی کہ وہ کسی صورت میں بھی خالی ہاتھ نہیں بھیجیں گے کیونکہ وہ ہر خوشی وغمی کے موقع پر اپنے غریب رشتے داروں کی لازمی مدد کیا کرتے تھے ان کے گھر پہنچا تو انہوں نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں نے اپنے بچوں کی شادی کرنی ہے آپ جلدی قرضہ واپس دینے کی پوزیشن میں نہیں لگتے لہذا ہمارے لیے تھوڑا مشکل ہے اب کی بار مجھے انہتائی شرمندگی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑا پریشان ہوکر گھر آگیا

شام کو میرا ایک دوست آیا کہنے لگا کیوں پریشان ہیں کام کب تک شروع کرنا ہے میں نے ساری صورت حال ان کو سنائی کہ جن کے بل بوتے پر کام شروع کرنا تھا وہ سب منحرف ہوگئے میں نے سوچا میرا دوست بھی میرے ساتھ پریشان ہوجائیگا لیکن اس نے پریشان ہونے کی بجائے خوشخبری سنائی کہ میرے والد صاحب کی اسی ماہ ریٹائرڈمنٹ ہورہی ہے آپ صبر کریں جتنی بھی رقم ضرورت ہے مل جائے گی دو ماہ بعد میں نے ان کی مدد سے کاروبار شروع کردیا والدین کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ پہلے دن ہی سے اللہ تعالی نے مدد فرمائی محنت ایمانداری اور صبر کو کامیابی کا ہتھیار اختیار کیے رکھا

آج الحمداللہ میرا کاروبار بڑھتے بڑھتے ایک ضلع میں پھیل چکا ہے میری وساطت سے سینکڑوں افراد کو روزگار ملا ہوا ہے اللہ تعالی نے ہر آسائش سے نوازا ہوا ہے وہی رشتے دار جن کے پاس میں پچیس برس قبل قرضہ حسنہ کے لیے گیا تھا آج ان کی بھاری رقوم اور امانتیں میرے پاس پڑی ہوئی ہیں یہ سب اللہ کافصل و کرم ہے کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں