301

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم تحقیق و تنقید نگار، کمپئیر و شاعر

پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ٢ اکتوبر ١٩۵۵ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ تعلیم:ایم فل ۔ پی ایچ ڈی ہیں۔ شعبہ تحقیق و تنقید میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔آپ کی 187کتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔
س:لکھنا کب اور کیسے شروع کیا؟ محرک کیا تھا ؟
ج:چھٹی جماعت سے قرطاس و قلم ہاتھ میں تھا ۔ اساتذہ کرام محرک تھے۔
س:اچھا ادب کیسا ہونا چاہئے۔ کیا آج کا ادیب اپنے فرائض پورے کر رہا ہے؟
ج:اَدب زندگی کا عکاس ہوتاہے۔ سرسید احمد خان سے ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ تک جن لوگوں نے اَدب برائے زندگی کا پرچم تھاما وہ آج بھی زندہ و پائندہ ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں احساس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ احساس رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔
س:ایوارڈز / وظائف؟
ج:کئی کتابوں پر ایوارڈز ملے ۔ زمانہ طالب علمی میں وظائف حاصل کیے۔
س:آبائی شہر اور موجودہ رہائش؟
ج:سرگودھا ۔ مکان نمبر319-Y، اقبال کالونی سرگودھا
س:آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ج:میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر۱ سے، گورنمنٹ کالج سرگودھا سے فرسٹ ایئر ۔ بی اے سے باقی تعلیم پرائیوٹ۔ چار مضامین میں ایم اے، ایم فل(علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی )، پی ایچ ڈی پنجاب یونی ورسٹی
س:آپ کی اب تک 187 سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں سے زیادہ تر کتب علامہ اقبال سے وابستہ ہیں۔اس کی کوئی خاص وجہ؟
ج:اقبالؒ پر 41کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اقبال کا کلام دل پے حکمرانی کرتا ہے ۔ اقبال نے لفظوں کو حسن ، رعنائی اور سوچ کو سچائی عطاءکی ہے۔
س:ہمارے ہاں کتاب سے بے رغبتی کا رجحان عام ہے آپ کے نزدیک اس کے کیا اسباب ہیں؟
ج:سوشل میڈیا کی وجہ سے موبائل کا خنجر کتاب کے سینے میں پیوست ہو چکا ہے ۔
س:اقبال کی غزل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج:اقبال کی غزل روایت اور جدیدیت کا سنگم ہے ۔ اُنھوں نے غزل کو قومی شعور میں ڈھالا ہے ۔ اُن کی غزل فکری توانائی سے ہم آہنگ ہے ۔
س:آپ نے تبصرہ نگاری کی طرف زیادہ توجہ دی اس کی کوئی خاص وجہ؟
ج: دوست احباب کی کتابوں کو ہدیہ تحسین پیش کرنا اَدب شناسی کے لیے ضروری ہے ۔ اہلِ اَدب کی کاوشوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں کتابی صورت میں ڈھالا گیا ہے ۔
س:ترجمہ فروغ ادب کے لیے کس حد تک اہم ہے اور یہ بھی بتا دیں کہ نثری تخلیق کا ترجمہ مشکل ہے یا شعری کا؟
ج:دنیا بڑی وسیع ہے ۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے اَدب اور اُن کے رویوں سے اہلِ وطن کو آگاہ رکھنا ترجمہ نویسی سے ہی ممکن ہے ۔
س:ادب میں نظریہ سازی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج:نظریہ کسی بھی ادارے اور قوم کی اساس ہوتاہے۔ اس لیے نظریاتی سرحدوں کا دفاع بہت ضروری ہے۔
س:کیاآج کل لکھے جانے والے فلیپ، آراءاور دیباچے تنقیدی سرمایہ ہیں؟
ج:ان سب کا تعلق اختصار نویسی میں آجاتا ہے ۔ مذکورہ مراحل اَدبی فروغ کے لیے ضروری ہیں۔
س:کسی ایسے میدان کی نشاندہی کریں گے جس پر فوری کام کی ضرورت ہے؟
ج:کتاب دوستی اور کتابی ثقافت کی طرف توجہ بہت ضروری ہے ۔
س:اردو نعت کے ارتقا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
ج:الحمد للہ ! پاکستان میں نعت گوئی کا ارتقاءقابلِ ستائش ہے ۔ لاکھوں نعتیہ مجموعے عشقِ رسول ﷺ کا اظہار ہیں۔
س:سرگودھا کے ادبی ماحول کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج:سرگودھا اَدب کا جی ایچ کیو ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دبستانِ سرگودھا کے سر سے بزرگوں کا سایہ اتر چکا ہے ۔ سرگودھا اَدبی روایات کا امین ہے اور یہاں کی تقریبات اَدب کے فروغ میں اہمیت رکھتی ہیں۔
س:مستقبل میں کون سی صنف سخن ہماری تہذیب کی نمائندگی کرے گی یا شناخت بنے گی؟
ج: ہر تخلیق کار اپنے من کی دنیا کا اظہار کرتاہے ۔ اصنافِ نثر اور اصنافِ شاعری میں ارتقائی عمل جاری ہے ۔ کسی ایک صنف کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔حمد و نعت اور غزل کا مستقبل بہت روشن ہے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں