بابر اورنگزیب/مسلم لیگ ن این اے 59 سوشل میڈیا کوارڈینیٹر قیس قیوم ملک نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ سوشل میڈیا موجودہ دور کی اہم ضرورت بن گئی ہے کسی بھی سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا اس کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے این اے 59 میں ہمارے پاس سوشل میڈیا کی ایک موثر ٹیم ہے جو یونین کونسل کی سطح پر موجود ہے جس میں پی پی 10 کی سوشل میڈیا ٹیم کی تنظیم سازی زور و شور سے جاری ہے اور پی پی 12 کے مختلف علاقوں میں بھی سوشل میڈیا ٹیم مکمل ہوچکی ہے بہت سی یونین کونسلز میں‘ گراس روٹ لیول پر جا کر یہ تنظیم سازی کی گئی ہے اور سوشل میڈیا کی ٹیم این اے 59 کی ہر یونین کونسل میں موجود ہوگی جو مسلم لیگ ن کی جو تنظیم سازی دیگر شعبوں کی ہوگی اس میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرے گی سوشل میڈیا کی جو ٹیمیں ہیں انکی وابستگی کسی فرد واحد سے نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے اور اس حوالے سے قمر اسلام راجہ نے بھی منتخب ممبران کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ پارٹی ہی سب کچھ ہے کسی فرد واحد کو پروموٹ نہیں کرنا ہماری سوشل میڈیا ٹیمیں جس طرح سے کام کر رہی ہیں آئندہ آنے والے وقت میں جو بھی الیکشن ہوں خواہ بلدیاتی الیکشن ہوں یا قومی اہم کردار ادا کرے گی کسی فرد واحد سے مسلم لیگ ن کو کچھ نہیں ہوگا چوہدری نثار علی خان ہمارے بزرگ ہیں ان کے ہونے یا نہ ہونے سے مسلم لیگ ن کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اب مسلم لیگ ن کا حصہ نہیں ہیں قیس قیوم ملک نے کہاکہ این اے 59 میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی صورتحال ملکی صورتحال سے مختلف نہیں ہے جس گلی کوچے میں چلے جائیں ہر شخص تنگ ہے بیروزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے مہنگائی اپنی آخری حدوں پر ہے منتخب نمائندوں کی بے حسی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے یہاں پر بڑی سنگین صورتحال درپیش ہے غلام سرور خان دو سال میں کوئی بڑا پروجیکٹ سامنے نہیں لاسکے وہ آج بھی گلی نالی کی سیاست کر رہے ہیں جس پر پی ٹی آئی کے اپنے ووٹر بھی اب پچھتا رہے ہیں لوگ پی ٹی آئی کی کارکردگی کے بعد مسلم لیگ ن کی طرف دیکھ رہے ہیں ووٹر اب سیاسی شعور رکھتا ہے اور اس سیاسی شعور نے دو سال میں بڑی ترقی کی ہے سیاسی بلوغت آئی ہے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ لوگ دوبارہ چوہدری نثار علی خان کی طرف دیکھ رہے ہیں یا انکو لانے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ پہلے بھی لوگوں نے شخصیت کی طرف نہیں دیکھا تھا اور آئندہ بھی وہ شخصیت کی طرف نہیں دیکھ رہے ووٹ ہمیشہ پارٹی کا ہوتا ہے لوگ موجودہ صورتحال میں پارٹیوں کا تقابل ضرور کر رہے ہیں کہ جو مہنگائی یا بیروزگاری ہے اس کا انفرادی طور پر غلام سرور خان ذمہ دار نہیں ہے یہ پارٹی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے اس لئے لوگ پارٹیوں کا تقابل کر کے واپس مسلم لیگ ن کی طرف دیکھ رہے ہیں یہ کسی قسم کا شخصیات کا تقابل نہیں کر رہے،اگر کسی سابق نمائندے نے یہاں ترقیاتی کام کروائے تھے تو وہ صوبے میں بھی مسلم لیگ ن کی ہی فنڈنگ تھی اور ضلع میں بھی‘کیونکہ اگر شخصی طور پر کام کوئی کرواتا ہوتا تو موصوف آج بھی ایک صوبائی حلقے کے منتخب رکن ہیں اور اگر شخصی طور پر یہ کام کیا ہوتا تو اک دو سال میں صوبائی حلقے کے منتخب رکن ہیں انکے کام نظر آتے دو سال میں اپنے حلقے میں ایک اینٹ تک نہیںلگوا سکے انجینئر قمراسلام راجہ نے اسیری کے بعد پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے نہ صرف این اے 59 بلکہ راولپنڈی ٹیکسلا کی حد تک پارٹی کو منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے انھوں نے جس طرح سے این اے 59 میں یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی شروع کی ہوئی ہے اس سے پارٹی بہت مضبوط ہوگی حلقہ پی پی 12 میں فیصل قیوم ملک بہت محنت کر رہے ہیں سابق بلدیاتی نمائندوں کے بارے میں سوال پر انکا جواب تھا کہ سابق منتخب بلدیاتی نمائندے اگر ناراض ہیں تو مسلم لیگ ن نے تو کسی کو بھی ناراض نہیں کیا مسلم لیگ ن تو وہیں پر ہے یہ جس پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے جب تک یہ لوگ خود پارٹی سے اپنی عدم وابستگی کا یا لاتعلقی کا اظہار نہیں کرتے اس وقت تک وہ پارٹی کا حصہ ہی رہےں گے لیکن اب جب تنظیم سازی ہو رہی ہے آگے بلدیاتی الیکشن آنے والے ہیں اب الیکشن میں ان کے ساتھ کیا کرنا اس کا آخری اور حتمی فیصلہ تو قمرالسلام راجہ نے ہی کرنا ہے میں اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا بلدیاتی انتخابات کا اصل فیصلہ حالات اور وقت کے مطابق کرےں گے جب انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا اور حلقہ بندیاں ہوں گی اس وقت ہم یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ کس کو میدان میں اتارنا ھے آخری فیصلہ قمر اسلام نے ہی کرنا ہے غلام سرور خان کی مجموعی کارکردگی حلقہ این اے 59 میں ایسی نہیں ہے جس پر بات کی جائے بلکہ ملکی سطح پر بھی انکی کارگردگی سے ملک کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے پہلے وزیرپیٹرولیم تھے تو گیس کے زائد بل کا سکینڈل سامنے آیا پھر وزیر ہوا بازی آئے تو پی آئی کے پائلٹس کے خلاف بیان دیا جس پر دنیا بھر میں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ہماری ائیر لائن کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
133