142

چوہدری حبیب کے بچھڑنے کی یاد /چوہدری عبدالخطیب

زندگی کے بعدموت ایک اٹل حقیت ہے جو زی روح دنیا میں آیا اس نے ایک مقررہ وقت تک کرہ ارض پر رہ کر ابدی زندگی کی جانب ہر صورت لوٹ کر جانا ہے جدائی اور محبتوں کا دکھ عزیز و اقارب کے دلوں میں ہروقت موجود رہتا ہے اور ہر اہم موقعوں پر پیاروں کے بچھڑجانے کی یاد ضرور رولاتی ہے

لیکن اس کو اللہ کی رضا اور دنیاوی نظام کا حصہ قرار دیکر صبرو شکر سے ہی ہمت باندھنا پڑتی ہے بردار اصغر چوہدری محمد حبیب کو بچھڑے دوسال ہوگئے ہیں لیکن اس کی جدائی نے نہ صرف خاندان بلکہ دوست واباب کو بھی تنہائی دے گئی محمد حبیب نے روزانہ مسلسل اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی محنت سے خاندان کو غربت کی زندگی سے نکال کر پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ایک سنگ میل کا کردار ادا کیا صبح تین بجے بیدار ہوکر راولپنڈی سے اخبار لاکر روات مانکیالہ اور شاہ باغ کی مارکیٹ کی تقسیم کرکے صبح آٹھ سے رات دس بجے تک مسلسل کریانہ سٹور پر لوگوں کو ڈیل کرنا اس کا معمول تھا لیکن تھکاوٹ کی بناء پر اس کی چہرے پر کبھی خفاکی اور پریشانی نہ دیکھنے کو ملتی بلکہ ہروقت آنیوالے گاہک کو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ملنا اس کا انداز تھاہروقت شاپ پر گاہکوں کا رش رہنا بلکہ دوستوں کا بیٹھ کر گپ شاپ لگانااپنے لیے خوشی محسوس کرتا اور جبکہ کوئی صحافی یا اخبار سے وابستہ شخص ان کے پاس آتا وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا چونکہ اخباری صعنت اس کی کامیابی کا پہلا زینہ ثابت ہوئی تھی اس کے بعد کریانہ کا کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کوکاروبار کی جانب راغب کرنے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہا مسلسل محنت اتفاق اور والدین کی دعاؤں نے رنگ لانا شرو ع کیا تو ایک وقت آیا مزدوری کرنے والے بھائی بھی اپنے اپنے کاروبار کرنے کے قابل ہوگئے غربت کی تاریکی چھٹنے لگی ہر روزطلوع ہونے والا سورج خوشحالی اور کامیابی کی نوید لانے لگاکاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے پنڈی پوسٹ کی ڈیگلریشن ملنے کے بعد اس کی اشاعت کا آغاز ہواتو چوہدری محمد حبیب کی جان میں جان آگئی علاقہ میں دیگر اخبارات کو متعارف کروانے والا اپنے اخبار کو متعارف کروانے کیلئے دن رات ایک کردیا کریانہ سٹور کو دو چار گھنٹوں کے لیے بند کرکے گوجرخان کلرسیداں مندرہ اور روات کی مارکیٹ میں خود جاکر اس کی مارکیٹنگ کی اور اخبار کی سرکولیشن بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جس دن پنڈی پوسٹ کی جاتی اس روز سٹور کو زرا جلدی بندکرکے اخباری کی تیاری کو دیکھتا اور معلومات لیتا آج کون کون سے اہم خبر ہے لیڈ کیا بنائی جارہی ہے ساتھ ساتھ سٹاف کو شاباش دیتاجوں ہی وقت تیزی گزرتا رہانو اکتوبر 2013ء کو بھی محمد حبیب صبح تین بجے بیدار ہوا بغیر ناشتہ کیے دو معصوم بچوں سمیع اللہ اور محمد ابراہیم کوآخری نظر دیکھتا ہوا موٹرسائیکل پر سوارہوکر اخبار لینے کے لیے روانہ ہوا ابھی گھر سے ایک دو کلومیٹر ہی دور گیا تھا کہ کلرسیداں روڈ پر جاوید اشرف کے پلازہ کے قریب ایک گھوڑا فرشتہ اجل بن کر روڈ پر آگیا جس سے موٹرسائیکل تیز رفتار ی سے جا ٹکرایا جس کی بناء پر محمد حبیب کی سر پر شدید چوٹیں آئیں جن کو فوری طور زرنین ہسپتال پہنچایا گیا وہاں جب صبح چار بجے گھر کو حادثہ کی اطلاع ہوئی تو ایسے پتہ چلا کہ کوئی زلزلہ آگیا ہے تو بھائی بھتجے کسی کے پاؤں میں جوتا کسی کے جسم پر قمیض نے پیدل ہی زرنین ہسپتال کے پاس دوڑتے ہوئے پہنچے تو پتہ چلا کہ حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ہسپتال راولپنڈی ریفر کردیا گیا بھائی بھتجے راولپنڈی پہنچے تو اس محمد حبیب کو دنیا جہاں کی کوئی ہوش نہیں تھا کہ میرے چاہنے والے مجھ دیکھ رہے اور صحت کیلئے دعائیں کررہے ہیں ڈاکٹروں نے دماغ کا سٹی سکین کرنے کے بعد بلایا کہ بھائی کیلئے دعائیں کریں چونکہ دماغ کا قمہ بن چکا ہے زندگی کے کوئی چانس نہیںیہ الفاظ بھائیوں پر بجلی بن پر گری سبھی پر غشی کے دورے پرنے لگے ہسپتال میں 36گھنٹے زندگی و موت کی کشمکش رہنے کے بعد 10اکتوبر بروز جمعتہ المبارک کو دن دو بجے روح جہاں فانی سے پروازکرگیا اور 11اکتوبر کو بروز ہفتہ د ن گیارہ بجے موہڑہ بھٹاں میں ان کی نماز جنازہ اٹھا تو علاقہ سے عوام کا ہجوم غفیر آمڈ آیا نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی جوانی کی موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی بھائی محمد حبیب کو بچھڑے آج دوبرس بیت گئے ہیں لیکن اس کی مسکراہٹیں‘ محبتیں اور پیار کی بھری یادیں آج بھی دل کو رولاتی ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مرتبہ عطا فرمائے امین.{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں