83

چونترہ کا مقدمہ،ترقی مخالف ہونے کا الزام/ عرفان راجہ

گزشتہ اتوار پنڈی پوسٹ کے شمارے میں میرے ایک مضمون جس کا عنوان’ چونترہ کا مقدمہ ‘تھامحترم مسعود جیلانی نے اپنا تنقیدی نقطہ نظر پیش کیا موصوف نے اپنے مضمون میں نہ صرف راقم پر ترقی مخالف ہونے کا الزام لگایا بلکے یہاں تک فرمایا کہ میں ایک مخصوص سیاسی شخصیت کے لیے اس کی طرف سے ترقی مخالف لابینگ میں بھی مصروف ہوں اور یہ کہ علاقہ چونترہ میں جس بڑے ہسپتال کا مطالبہ کیا جارہا ہے میں نے اپنے مضمون میں اس کی بھی مخالفت کی ہے موصوف نے ادبی حوالے سے میرے کردار کو سرہاتے ہوئے صحافت میں میری ناپختہ کاری کا بھی ذکر کیاہے ۔ایک اور تاثر جو کہ موصوف کی پوری بات سے اُبھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ کہ میں نے چک بیلی کی معاشی اہمیت کمتر ثابت کرنے کی جسارت کی ہے جس کے جواب میں انہوں نے چونترہ میں قائم ایجوکیشن آفس کے چک بیلی خان میں کام کرنے اور چونترہ رورل ہلیتھ سنٹر کے پورے علاقہ کے لیے مفید ثابت نہ ہونے کی بھی دلیل دی ہے۔میں مسعود جیلانی صاحب کے نقطہ نظر کا احترم کرتا ہوں اور ساتھ ہی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں کہ انہوں نے میری نقطہ نظر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا ہے اس لیے اب یہ بات میرے لیے ضروری ہے کہ میں اُن کی طرف پیش کیے گئے نکات کی وضاحت کروں۔
(۱) مضمون نگار کے بقول میں نے علاقہ چونترہ میں ایک بڑے ہسپتال کی ضرورت کو تو تسلیم کیا لیکن چک بیلی میں اس کے قیام کی صورت میں سارے علاقہ کے لیے اس کے مستفید نہ ہو سکنے کی دلیل دی اور یہ کہ میں نے اُس کے لیے متبادل مقام کے بارے میں بھی نہیں بتایا جہاں پر تعمیر کی صورت میں زیادہ سے زیادہ علاقہ اس سے مستفید ہو سکے۔اس کے جواب میں عرض ہو کہ محترم مسعود جیلانی نے میرے مضمون میں اس جملے کو شائد نہیں پڑھا کہ اڈیالہ روڈ چکری روڈ اور جوڑیاں تا چکری حالیہ نوتعمیر روڈ اب اس علاقہ کی معاشی لائف لائن بن چکی ہیں ان شاراہوں پر تعمیر ہونے والے تعلیمی صنعتی اور صحت کے منصوبے ہی پورے علاقے کے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔
(2)جیلانی صاحب نے دوسری دلیل یہ دی کہ اسسٹنٹ ایجوکیشن آفس پہلے چونترہ میں تھا لیکن اب وہ چک بیلی میں کام کر رہا ہے پہنچ کے مسائل کی وجہ سے اس کو چک بیلی منتقل کیا گیا اور اب اساتذہ آسانی سے وہا ں پہنچ رہے ہیں۔اس سلسے میں گزارش ہے کہ یہ دفتر اب بھی چونترہ میں ہی موجود ہے اے ای او ز کا ٹیچرز کو چک بیلی آنے کا حکم دینا اور خود چونترہ دفتر نہ آنااس کی وجہ ٹیچرز کی خوشی نہیں بلکے ہمارے ہاں کی افسر شاہی کا وہ عمومی رویہ ہے جس کا آج ہمارہ معاشرہ شکار ہے کیونکہ اے ای او ضیاالرحمان ہو یا ثقلین اتفاق سے اب تک جتنے بھی اے ای اوز آئے اُن سب کا تعلق یا تو چک بیلی سے تھا یا اس کے قریب کسی گاوٗں سے اس لیے انہوں اپنی سہولت کے لیے دیگر عملے کو چک بیلی آنے پر مجبور کیا پہلے چک بیلی کے ایک بوائے ہائی سکول کے ایک کمرے پر قبضہ کیے رکھا جب وہاں کی انتظامیاں نے احتجاج کیا توچک بیلی بوائے مڈل سکول کے ایک کمرے پر غیر قانونی اور غیراخلاقی قبضہ کر کے دفتر بنایا ہوا ہے ہونا تو یہ چاھیے تھا کہ اداروں کے اس طرح تقدس کے خلاف مسود جیلانی جیسے باشعور دوست اپنی آواز اُٹھاتے نہ کہ اس کو اپنے کسی اور موقف پر دلیل کے طور پر پیش کرتے،جیلانی صاحب کی معلومات کے لیے عرض کرتاچلوں ان دنوں جو فیمل اے ای او چونترہ مرکز تعینات ہے اس کا تعلق گورکھپوراڈیالہ جیل سے ہے اب زیادہ تر ٹیچرز میٹیگ راولپنڈی میں ہورہی ہیں
(3)جیلانی صاحب کے بقول راقم نے چک بیلی خان کی معاشی حیثیت کو سہال، چکری،جھٹہ ہتھیال اور دیگر سے کمتر قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں گزارش ہے کہ راقم کا موقف یہ ہے کہ راولپنڈی سے نذدیک واقع ہونے اور رابطہ سڑکوں کی تعمیر سے علاقہ میں دیگر معاشی مراکز اُبھر رہے ہیں اور کوئی بھی باشعور شخص راقم کی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا۔
(4)آخر میں جیلانی صاحب نے راقم کو اس لابنگ کا حصہ دار قرار دیا ہے جس کا مقصد علاقہ کی ترقی کو روکنا ہے۔اس بات پر میں افسوس کا اظہار ہی کر سکتا ہوں میں یہ سمجھتا ہوں کہ جیلانی صاحب چونکہ صحافت کے ساتھ تحریک انصاف کے مقامی عہدے دار بھی ہیں اس لیے سیاست اور صحافت میں انصاف نہیں کر پا رہے جبکہ اس کے بر عکس میرا تعلق جو جیلانی صاحب نے خود بھی تسلیم کیا ادب سے ہے اس لیے ادب سے وابستہ کسی شخص کو کوئی بھی چیز صحافتی اقدارکی پاسداری نہیں روکتی لیکن سیا ست اور صحافت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟آخر میں ایک وضاحت پیشِ خدمت ہے کہ علاقہ چونترہ میں اب انفسٹریکچرپُل سڑکیں گلیاں ابتدائی اور ثانوی نوعیت کے تعلیمی ادارں کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے یا تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اس کے بعد ہمارے سیاست دانوں کے پاس صحت اعلی تعلیم صنعت وحرفت فراہمی گیس جیسے بڑے منصوبوں سے مفر کا کوئی جواز باقی نہیں رہا کوئی کتنی ہی لابنگ کرلے کسی دانش ور کے بقول کسی بھی ایسے نظریے کو نافذہونے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی جس کے نفاذ کا وقت آگیا ہو۔جیلانی صاب کی خدمت میں پھر دست بستہ عرض ہے۔
ابھی توں راہ گُزر میں ہے قیدِ مقام سے گزر
مصرو حجاز سے گُزر فارس و شام سے گُزر{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں