136

پوٹھوہار‘ سماجی ماحولیاتی جغرافیائی تبدیلیوں کی لپیٹ میں/عرفان عزیز راجہ

تمام خطہ پوٹھوہار اور اس کا اہم ترین شہر راولپنڈی جو تاریخ اعتبار سے وسط ایشیائی یونانی افغان اور ایرانی حملہ آوروں کا ہندوستان پر حملے کی مہم میں ایک اہم پڑاوٗ رہا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ آج سے تقریباً اڑھائی ہزار سال یعنی سکندر یونانی کی ہندوستان آمد کے وقت اٹک میں راجہ اُمبی اور جہلم میں راجہ پورس کی حکومت تھی راجہ اُمبی نے سکندر سے جنگ نہ کرنے میں ہی مصلحت جانی جبکہ راجہ پورس نے اپنے وقت کے عظیم جرنیل اور پوری دُنیا کے فاتح سکندر یونانی کا جس بہادری اور جواں مردی سے مقابلہ کیا اس کی مثال سکندر کی دنیا فتح کرنے کی مہم میں کسی اورجگہ نہیں ملتی پورس کی شکست کے بعد اس علاقہ کے لوگ نہ صرف کبھی بھی ازخود حکومت کا کوئی نظم قائم نہ کر سکے بلکہ پورس کی شکست کے بعد ہندوستان بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ بن گیا اس کے بعد یہ خطہ یونانیوں وسط ایشیائی مغلوں افغانوں اور ایرانیوں کے ہاتھوں تاراج ہوا آخر میں انگریز آئے جو سرد خطے کے باسی تھی ہندوستان کی شدید گرمی سے راحت پانے کے لیے انگریز نے یہاں کے پہاڑی علاقوں جیسے مری ایبٹ آباد وغیرہ جیسے ٹھکانے آباد کیے مری اور ایبٹ آباد تک رسائی کے لیے راولپنڈی کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا قیامِ پاکستان کے بعد ایوب دور میں نئے دارالحکومت کے لیے راولپنڈی کے قریب جگہ کا انتخاب کیا گیا اس سے پورا خطہٗ پوٹھوہار اور خاص طور پر راولپنڈی شدید جغرافیائی ماحولیاتی اورسماجی تبدیلیوں کی زد میں آگیا جن میں مثبت اور منفی دونوں پہلو شامل ہیں اسلام آباد کے قیام سے یہ علاقہ آبادی کے شدید دباوٗ کا شکار ہو گیا ہے پورے پاکستان سے لوگ یہاں آکر آباد ہو رہے ہیں شہری علاقوں میں صحت تعلیم اور روز گار کے بہتر موقع پیدا ہو رہے ہیں اور زمین کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تعمیرات تیزی سے بڑھ رہی ہیں لیکن دوسر ی طرف بہت سے تاریک پہلو سامنے آرہے ہیں پوٹھوہار کے دیہی علاقے تعلیم و صحت کے میعاری اداروں سے ہنوز محروم ہیں تعمیراتی سرگرمیوں کے نام پر کنکریٹ کے جنگل اُگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرعی رقبہ ختم ہو رہا ہے قدرتی جنگل کاٹے جارہے ہیں زیرِ زمیں پانی کی سطح گر رہی ہے پوٹھوہار کا واحد دریا جو کے صدیوں سے اس خطے کی تاریخ کا امین ہے اب ایک گندے جوہڑ کی شکل اختیار کر گیایہ وہی دریا ہے جس کا پانی آج سے چند دہائیاں قبل لوگ پینے کے لیے استعمال کرتے تھے آج اس میں کوئی اپنی انگلی ڈبونا گوارہ نہیں کرتا سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں بھی تیزی سے جاری ہیں رہن سہن کے انداز میلے ٹھلے شادی بیاہ کی رسمیں وہ نہیں رہیں جو کچھ عرصہ پہلے تھیں انٹرنیٹ اور موبائل بھی اس کی بڑی وجہ ہیں پوٹھوہاری ڈرامے نے چند سال قبل لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جس کی ترقی میں بیرونِ ملک مقیم اس علاقہ کے لوگ زیادہ معاون ہوئے لیکن اب یہ بھی زوال پذیر دکھائی دیتا ہے ثقاتی طور پر سب سے زیادہ شکست و ریخت موسیقی کے شعبے میں دیکھنے میں آرہی ہے ایک زمانے میں پوٹھوہار کے گیت ماہیے جگنی اور سمیی پورے پنجاب میں اپنی مثال آپ تھے شعر خوانی کی صنف نے اس کا گلہ گھونٹ دیا ہے بدقسمتی سے شعرخوانی خود یہ نام ہی اہل، ذوق پر گراں ہے حادثہ و مرگ پر عورتوں کے بین سے ماخوز اس صنفِ موسیقی کے ابھی تک قوائد ہی طے نہیں گھڑے ستار اور ڈوھول کی رسیلی آواز متاثر کن ضرور ہے لیکن درمیان مین مستعار لی گئی فلمی گانوں کی رنگ برنگی دھنین فرمائش کرنے والوں کی کلوگار کی طرف سے پوری فہرست بمہٗ گاوٗں پڑھنا گلوکاری کی طویل نشست اور اس میں مقابلہ بازی اس کو مضکہ خیز بنا دیتے ہیں ایک اور بڑی خامی اس صنفِ موسیقی کی آوازاور موسیقی کے زیرو بم میں عدم توازن ہے کہ اس میں گائے جانے والی شاعری کچھ ایسے دب جاتی ہے کہ عام شخص اس کے بول سن ہی نہیں پاتا سمجھنا تو دور کی بات۔خطہٗ پوٹھوہار کے ایک سچے فنکارراجہ اعجاز نے پوٹھوہار کے روایتی گیت اور انداز زندہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے جس میں اُن کے مشہور گیت( نیں آیا نیں آیا کوٹھے تے چڑتکیا وے ماہیا نین آیا اور نیکا جیا موڑہ پڑیاں اُتے گِراں ماہیا)شامل ہیں جس میں پوٹھوہار کی موسیقی کی جڑہیں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے بیل دوڑ اورکبڈی آج بھی مقبول ہیں لیکن بیل دوڑ اور پوٹھوہار کی مخصوص کبڈی جسے لمبی کوڈی کہا جاتا ہے اب تک ملکی سطح پر اپنی جگہ نہیں بناسکی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں