189

پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز کنول

ڈاکٹر محمد نواز کنول کا تعلق درس و تدریس کے شعبہ سے ہے۔ آج کل گورنمنٹ اسلامیہ پوسٹ گریجوایٹ کالج سانگلہ ہل میں اسسٹنٹ پروفیسر اور صدرِ شعبہ اُردو کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ موجودہ دور کے بہترین نقاد اور محقق ہیں۔ تحقیقی و علمی خدمات پر کئی ایوارڈز سے نوازے جا چکے ہیں۔ آپ مولانا جلال الدین رومیؒ، اقبال اور عبدالعزیز خالدؔ پر بہت کام کر چکے ہیں۔

آج ہمیں ان سے خصوصی گفتگو کا موقع ملا ہے۔ آئیے آپ بھی پڑھ کر محظوظ ہوئیے۔آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟ کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ میری پیدائش ۴ جنوری ۱۷۹۱ء کو (معظم آباد) ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول و اسوآنہ (ضلع جھنگ) اور اس کے بعد گورنمنٹ مڈل سکول دودہ (ضلع سرگودھا) سے چھٹی ساتویں کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ ہشتم کلاس کے دوران میں ہی گورنمنٹ ہائی سکول بھاگنانوالہ (ضلع سرگودھا) میں داخلہ لے لیا اور اسی درس گاہ سے مڈل، میٹرک کے امتحانات پاس کیے۔ بعد ازاں جب مذکورہ بالا سکول کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ حاصل ہوا تو اسی ادارے سے ہی ایف۔ اے کی تعلیم حاصل کی۔ بی۔اے پنجاب یونیورسٹی اور ایم اے اُردو کی ڈگری اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے حاصل کی۔سکول کے زمانے میں میرا تعلق بزمِ ادب کے جوہر گروپ سے تھا۔

راقم بزم ادب کا جنرل سیکرٹری بنا۔ ہر جمعرات کو سکول کے اسٹیج پر نعت خوانی اور تقریری مقابلوں کا باقاعدگی سے انعقاد ہوتا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بھی خود ہی انجام دیتا اور تقریر بھی کرتا تھا۔ مختلف تقریری اور مضمون نویسی کے مقابلہ جات، بین الکلیاتی مباحثوں میں باقاعدی سے حصہ لیتا تھا اور متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔میرے تمام اساتذہ کرام ہی محنتی اور شفیق تھے۔

ماسٹر منظور حسین، شمشیر علی رانا، راجہ غلام حسین (ہیڈماسٹر)، سکندر حیات بھٹی، مکند لال (ہیڈماسٹر)، ملک محمد اکرم، ملک بھائی خان، اصغر علی بھٹی، سید ریاض حسین شاہ، شاہ نور صاحب، پروفیسر عبدالقیوم رانا، پروفیسر ملک فیروز خان، پروفیسر ملک خالق داد اعوان، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر افضال احمد انور، ڈاکٹر محمد آصف اعوان، ڈاکٹر شبیر احمد قادری، ڈاکٹر اشرف کمال اور ڈاکٹر طارق ہاشمی۔گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج سانگلہ ہل جو کہ اب پوسٹ گرایجویٹ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔آغاز سے تاحال اسی ادارے میں اپنی تدریسی خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ڈاکٹر محمد نواز کنول ہمدرد، ملنسار اور درویش صفت انسان ہیں۔ جو دوسروں کے کام آنا عبادت سمجھتے ہیں۔ امن ومحبت کا درس
دیتے ہیں۔مجھے شروع سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ سکول کے زمانے میں بچوں کے رسائل (بچوں کی باجی، بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت، کھلونا) میں کہانیاں لکھنا شروع کیا۔ بعدازاں روزنامہ ”جسارت“ اور ”نوائے وقت“ میں مضامین لکھے۔
آپ نے پی۔ایچ۔ ڈی کس موضوع پر کی؟

کے جواب میں کہا میں نے شاعرِ ہفت زبان عبدالعزیز خالدؔ کی ادبی خدمات پر پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ ڈاکٹر محمد آصف اعوان کی زیرِ نگرانی لکھ کر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔میں نامور شاعر ہفت زبان، مترجم، نثر نگار، عبدالعزیز خالدؔ کے حوالے سے جو تخلیقی کام کیا وہ میری وجہ شہرت بنا درج ذیل کتب ملاحظہ کیجیے: عبدالعزیز خالدؔ۔ احوال و آثار‘عبدالعزیز خالدؔ کی غزل گوئی‘ عبدالعزیز خالدؔ بطور مترجم‘عبدالعزیز خالدؔ کی مذہبی شاعری۔ آپ نے اور کن موضوعات پر خامہ فرسائی کی؟

کے جواب میں گویا ہوئے گلستانِ رومیؒ‘ بوستانِ رومیؒ‘ مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ایک مطالعہ۔اس کے علاوہ تصوف اور مطالعہ تصوف‘ اُردو ناول میں مذہبی عناصر اور بانوقدسیہ‘تحقیقی و تنقیدی جائزے‘اقبال بنام عطیہ فیضی منظر عام پر آچکی ہیں۔تحقیق و تنقید کی دنیا میں محققین اور نقادوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان میں سے گیان چند جین، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر محمد آصف اعوان اور ڈاکٹر اشرف کمال نے مجھے متاثر کیا۔اقبال مولانا رومیؒ کو اپنے مرشد کا درجہ دیتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اقبال کے پیر رومیؒ کی فکر سے متاثر ہوئے مگر میرے خیال کے مطابق وہ موضوعاتی تنوع کے حوالے سے رومیؒ سے اختلاف بھی کرتے ہیں وہ اپنے نئے راستوں کے راہی ہیں۔

دیکھیے صاحب! ہر دور کے اولیاء و اصفیانے اپنی روحانی قلبی واردات کو لفظوں میں سمیٹا اور اپنی تصانیف کا سرمایہ چھوڑا تاکہ نئے دور میں ہر کسی کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ آج اس امر کا فقدان ہے ہمیں اپنے اسلاف کے روحانی ادبی ورثہ پر نازاں ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اور کرداری حوالے سے فعال کردارادا کرنا چاہیے اور نسلِ نو کے لیے لازمی طور پر روحانی سرمایہ تصانیف کی صورت میں چھوڑنا ہوگا۔ تمام سلاسل تصوف کو آنے والی نسلوں کے لیے لازمی طور پر روحانی سرمایہ تصانیف کی صورت میں چھوڑنا چاہیے۔ ۲۱ فروری ۶۹۹۱ء کو میری تعیناتی بطور لیکچرار اُردو گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں ہوئی۔میرے خیال میں کسی بھی مصنف کا کام اور اس کی علمی و ادبی حلقوں سے پذیرائی ہی اس کے لیے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔
وہ سایہ جب بھی مانگے تم انکار مت کرنا
وصیت کر گیا کٹتے کٹتے املتاس درختوں کو
نثر لکھنا ہو یا شعر کہنے کا عمل ہو میرے خیال کے مطابق یہ دونوں تخلیقی عمل کے دو دھارے ہیں اور مطالعاتی مراحل کے ساتھ ساتھ نثر اور نظم دونوں کے لیے ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔اب میں نئے تجربات سے نئے لکھاریوں کے لیے حوصلہ افزائی اور نئی جہات کی طرف ادبی پیش قدمی خوش آئند بات ہے۔اُردو شاعری میں اقبال اور فارسی میں حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ دو بڑی شخصیات ہیں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور متاثر بھی ہوا۔ ان کے علاوہ شاعرِ ہفت زبان نثرنگار، مترجم عبدالعزیز خالدؔ سے علمی و ادبی حوالوں سے بہت متاثر ہوں۔

ہمارے شعراء و ادباء نے مسئلہ کشمیر اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم پر بہت لکھا ہے لیکن ابھی ضرورت ہے کہ اور بھی اس حوالے سے لکھا جائے تو اقوامِ عالم تک بذریعہ قلم قرطاس ان مسائل اور مظالم کو پہنچایا جا سکے۔فارسی اور اُردو ادب دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ پر مسلّمہ ہے۔ اب ہمارے ہاں فارسی کو وہ مقام و مرتبہ اور پذیرائی حاصل نہیں رہی جو کبھی اسے حاصل تھی ہمارے اسلاف کا سرمایہ ادب فارسی میں ہے اور نسل نو اس سے کم واقفیت رکھتی ہے۔ اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی کی تدریس کا عمل بھی بہتر بنایا جائے تو بہت اچھا ہو۔ ادب کے لیے مقصدیت درکار ہے۔ ایک فن کار کا مقصدیت کے تحت اپنے فن کا ابلاغ یقینا معاشرتی ادبی خدمت ہے اور ادب کیسے مثبت مقصدیت مفید ثابت ہوتی ہے۔

کلامِ اقبال آفاقی ہے۔ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل سے نپٹنے کے لیے اقبال کے آفاقی پیغام پر عمل کرنا ہوگا۔ اقبال کے تصورات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی آج کے دور میں اشد ضروری ہے۔شاعر کی صلاحیت ایک خداداد چیز ہے تاہم وسیع مطالعہ، مشاہدہ اور فن شاعری سے متعلقہ رموز اور اصولوں سے واقفیت لازم امر ہے۔مجھے اُردو ماہیا نگاری بہت پسند ہے۔ پنجابی سے اُردو میں اس کی منتقلی خوش آئند اور دل کش ہونے کے ساتھ ساتھ پُرتاثیر بھی ہے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج سانگلہ ہل میں بطور لیکچرار اُردو ۲۱ فروری ۶۹۹۱ء میں میری سروس کا آغاز ہوا۔۶۹۱ء میں ”لبِ جُو“ کا آغاز ہوا۔ بطور مدیر مجلہ ”لبِ جُو“ ۵۰۰۲ء تا ۹۰۰۲ء فرائض سرانجام دینے کے بعد ۰۱۰۲ء تاحال بطور مدیراعلیٰ ”لبِ جُو“ کے لیے میری خدمات جاری ہیں۔میرے تحقیقی کام کے حوالے سے سکالر ردا ثمرین نے جی سی یونیورسٹی وویمن شعبہ اُردو فیصل آباد سے بہ عنوان ”ڈاکٹر محمد نواز کنول بحیثیت محقق“ ایم فل اُردو کا تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی۔

منہاج یونیوسٹی لاہور سے محمد عرفان نے ”محمد نواز کنول کی خالد شناسی تحقیقی و تنقیدی ائزہ“تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اُردو لکھ کر ڈگری حاصل کی۔سکالر شاہ نواز نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے اپنا ایم اے اُردو کا تحقیقی مقالہ ”ڈاکٹر محمد نواز کنول کی علمی و ادارتی خدمات بحوالہ لبِ جو“ لکھ کر ڈگری حاصل کی۔سکالر حفصہ ارشد نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے بی ایس اُردو کا تحقیقی مقالہ مشاہیر کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”بات کر کے دیکھتے ہیں“ کے حوالے سے لکھ کر ڈگری حاصل کی۔ سکالر مصباح ظفر نے گورنمنٹ گریجوایٹ کالج راجن پور نے ”عبدالعزیز خالدؔ کی غزل گوئی از ڈاکٹر نواز کنول: تجزیاتی مطالعہ“ تحقیقی مقالہ لکھ کر بی ایس اُردو کی ڈگری بہاء الدین زکریا ونیورسٹی ملتان سے حاصل کی۔سکالر عائشہ ذوالفقار نے گورنمنٹ گریجوایٹ کالج راجن پور سے میرے عبدالعزیز خالد کے کام کے حوالے سے ”عبدالعزیز خالد کی نظم نگاری“از ڈاکٹر محمد نواز کنول: تجزیاتی مطالعہ“ بی ایس اُردو کا تحقیقی مقالہ لکھ کر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ڈگری حاصل کی۔گورنمنٹ گریجوایٹ کالج راجن پور سے بی ایس اُردو کا تحقیقی مقالہ سکالر سیماب لکھ رہی ہیں۔یہ ایک المیہ ہے

کہ نئے لکھنے والے بہت جلد شہرت عام کے طلب گار دکھائی دیتے ہیں۔ فن کی دنیا میں پختگی، تجربہ اور ایک وقتِ خاص ہوتا ہے جو آپ کے کام کو خود سامنے لے آتا ہے۔میری تحقیق کا دائرہ وسیع ہے۔ میں نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ”عبدالعزیز خالدؔ کی ادبی خدمات“ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ عبدالعزیز خالدؔ میر اتخصص ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ بھی میرا خاص موضوع ہے۔ تاہم تحقیق، تنقید، تصوف اور کلامی موضوعات پر میں نے کام کیا ہے۔میری نگرانی میں ایم فل اُردو کے ۶۱ سکالرز یونیورسٹی آف لاہور، سرگودھا یونیورسٹی اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد سے متنوع موضوعات پر ایم فل اُردو کے تحقیقی مقالات لکھ کر ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں اور میں نے اب تک ۰۳ سکالرز کے ایم فل اور ۲ سکالرز کے پی۔ایچ۔ ڈی کے VIVA زبانی امتحانات لیے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں