پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی 288

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی

وفاقی حکومت‘پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے نام سے ایک نیا دارہ قائم کرنا چاہتی ہے اس ضمن میں باقاعدہ ایک بل تیار کر چکی ہے مختلف حکومتی اور پارلیمانی فورمز پر یہ بل زیر بحث آچکا ہے حکومت کا موقف ہے کہ اس بل کا مقصد صرف پاکستانی صحافت اور میڈیاکی اصلاح اور بہتری ہے اس نئی اتھارٹی کے ذریعے پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو چھتری تلے لانا مقصود ہے تاکہ ہر میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا فریضہ ایک ہی چھت تلے سر انجام دیا جا سکے حکومتی موقف کے قطعی برعکس صحافتی حلقوں کا موقف ہے کہ حکومت پرنٹ‘الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو جکڑنے کا تہیہ کئے بیٹھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس نئی اتھارٹی کے قیام سے میڈیا جو پہلے ہی بستر مرگ سے لگا بیٹھا ہے اپنی رہی سہی سانسیں بھی کھو بیٹھے گا میڈیا کا دم خم تو حکومت پہلے ہی نکال چکی ہے اس نئی اتھارٹی کے ذریعے سوشل میڈیا کے کس بل بھی نکال دئیے جائیں گے اس سارے جھگڑے میں اپوزیشن جماعتیں‘میڈیا اتھارٹی بل کی مخالفت میں صحافتی حلقوں کا ساتھ دے رہی ہیں سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو میڈیا کی آزادی انہیں اچھی لگتی ہے بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آزادی سے کہیں آگے بڑھ کر جب میڈیا کے کچھ حلقوں نے اپنی محافتی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کیا تو اپوزیشن میں بیٹھی جماعت میڈیا کا کاندھا تھپکی اور اس کاحوصلہ بڑھاتی ہے لیکن حکومت میں آتے ہی ایسی جماعتوں کو میڈیا کی جائز اور قابل جواز آزادی بھی کھلنے لگتی ہے حکومتی کارگزاری پر ناجائزتنقید کرنے والا میڈیا بھی اپنی حدود سے متجاوز محسوس ہوتا ہے بہرحال دیکھا یہی گیا ہے کہ کم وپیش ہر حکومت میڈیا کو اپنے اپنے طریقے سے قابو کرنے‘اس کے ہاتھ پاؤں باندھنے اور اس کی زبان بندی کی کوشش کرتی ہے جہاں تک میڈیا کی آزادی کی بات کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن نہیں مہذب ملکوں اور جمہوری معاشروں میں میڈیا کی آزادی کو آکسیجن کا درجہ حاصل ہوتا ہے صرف صحافتی آزادی نہیں بلکہ پر طرح کی اظہار رائے کی آزادی بے حد اہم سمجھتی جاتی ہے پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لہذا یہاں اظہار رائے کی آزادی ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے تاہم کچھ عرصہ سے نہایت جید صحافی‘جن کی عمریں صحافت کے دشت کی سیاحی میں گزری ہیں‘شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں آزادی رائے کیلئے گنجائش سکوتی چلی آرہی ہے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جس صحافتی مجلس میں بیٹھو کالم اور خبریں رکنے‘ٹی وی پروگرام بند ہونے کے نت نئے قصے سننے کو ملتے ہیں پریس ایڈوانس کے نام سے موصول ہونے والے فرمان شاہی کے تذکرے بھی معمولات صحافت کا حصہ بن چکے ہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نہایت نامور غیرجانبداراور نظریاتی صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کرکے گھروں میں بٹھا دیا گیا ہے ان میں سے بہت سے بیکار سے بیگار بھلی کے مصداق یوٹیوب پر اپنے صحافتی فرائض سر انجام دیتے ہیں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو صحافت کیلئے بد ترین اور بے حد خطرناک ملک سمجھے جاتے ہیں چند ماہ پہلے مصروف ادارے فریڈم نیٹ ورک نے ایک رپورٹ شائع کی تھی اس رپورٹ میں پاکستان کو صحافیوں کیلئے سب سے غیر محفوظ اور خطرناک ملک قرار دیا گیا تھارپورٹ بتاتی ہے کہ شدید سینسر شپ‘صحافیوں کے قتل‘دھمکیوں دباؤ اور ہراساں کرنے جیسے واقعات کے باعث پاکستانی میڈیا کے گرد شکنجہ سخت ہورہاہے یہ تمغہ بھی ہمارے گلے میں پڑا ہو اہے کہ پاکستان میں
صحافیوں کے قاتلوں کو سزا سے سو فی صد استثنیٰ حاصل ہے کسی کا گلا کاٹ دیں کسی کو اغوا کر لیں کوئی پوچھنے والا نہیں کسی مجرم کی پکڑ کا رواج نہیں 2021کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان ایک سو اسی ممالک کی فہرست میں ایک سو پنتالیسویں نمبر پر ہے یورپی یونین نے کئی سال سے ایف اے ٹی ایف کے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے گرے لسٹ میں رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی اظہار رائے کا انتہائی فقدان ہے اس میں شک نہیں کہ پاکستان صحافت کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے آزادی اظہار رائے پر اخلاقی حدود کی پابندی ہونا نہایت ضروری ہے یہ بھی درست ہے کہ یہاں فیک نیوز کی وبا قابو سے باہر ہوچکی ہے ضروری ہے کہ غلط خبریں پھیلانے والوں کی کڑی گرفت کی جائے یاد رکھیے کہ ان سب امور کیلئے ہمارے ہاں قوانین اور ادارے موجود ہیں پاکستان کا شمار دنیا کے کثیر القوانین ملکوں میں ہوتا ہے پرنٹ میڈیا کیلئے پریس کونسل آف پاکستان قائم ہے الیکٹرانک میڈیا کیلئے پیمرا موجود ہے ڈیجیٹل میڈیا کیلئے سائبر کرائم کا قانون موجود ہے فلم کیلئے سنسر بورڈ کا ادارہ قائم ہے اس کے علاوہ ہتک عزت کے قوانین موجود ہیں ان تمام قوانین اور اداروں کی موجودگی میں کسی نئی میڈیا اتھارٹی کی ضرورت ہی کیا ہے؟حکومت اگر تمام ادارے ایک ہی چھت تلے لے آتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑجائے گا؟مجوزہ قانون میں کئی سال قید کی سزا‘بھاری بھرکم جرمانے اور تکنیکی آلات کی قرقی جیسی شقیں خصوصاََمیڈیا مالکان‘صحافیوں اور یوٹیوبز وغیرہ کیلئے اضطراب اور پریشانی کا باعث ہیں اگر حکومت کو میڈیا کی اصلاح مقصود ہے تو پہلے سے موجود قوانین کے نفاذ کیلئے اپنی توانائی صرف کرنی چاہیے اور اداروں کی مضبوطی اور خودمختاری میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے میڈیا کوڈ آف کنڈیکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور فوری سزائیں دینے کے نظام کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے ہر سیاسی جماعت کے پیش نظریہ بات بھی رہنی چاہیے کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہتے ہوئے تو میڈیا کو اپنا غلام بنانے جیسے اقدامات نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں مگر جب اپوزیشن جماعت بن کر سیاست کرنا پڑتی ہے تو یہی میڈیا اور اس کی آزادی ان سیاسی جماعتوں کی سیاست کو سہارا دینے کا باعث بنتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں