احشر منہاس‘ اسلام آباد
صبح آذان فجر سے آنکھ کھلی ، وضو کیا، ابھی نمازِ فجرمیں کچھ وقت باقی تھا، سوچاکیوں نہ موبائل آن کر لیا جائے، ابھی موبائل کو آن کیے پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، منہ سے آہستہ سے یا اللہ خیر کی صدا بلند ہوئی کہ اس وقت فون کی گھنٹی بجنا غیر معمولی تھا۔ فون اٹھایا تو معلوم ہوا کہ راجہ خلیق احمد صاحب اس دارے فانی سے کوچ کر گئے ہیں ۔ کچھ دیر کے لیے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وقت تھم گیا ہے ۔ خیر کچھ ہمت کر کے فیس بک کھولی ، ان کی اپنی ہی IDپر ان کے وصال کی خبر پڑھی تو پتا چلا کہ یہ محض خیال نہیں تھا ۔ راجہ خلیق احمد کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بلا لیا ، وقت تھم سا گیا ۔ جیسے صبح نے طلوع ہونے سے انکار کر دیا۔ راجہ خلیق صاحب کے بارے میں کچھ کہنے اور لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر شاید یہ چھوٹا منہ بڑی بات کے زمرے میں آئے۔ راجہ خلیق صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ الیکشن کے وقت شروع ہوا ۔ میں آپ کو ہمیشہ شفیق اور مہربان پایا۔ الیکشن لڑنے سے لے کر جیتنے تک اور جیت سے لے کر بیماری کے عالم تک آپ نے ہمیشہ اپنی شفقت کا ہاتھ سر پر رکھا ۔ سیاست سے ہٹ کر بھی ہم نے انہیں ہمیشہ دوسروں کے کام آتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کا جو حکم دیا خلیق احمد راجہ نے اپنی بساط سے بڑھ کر اُس پر عمل کیا یہی وجہ تھی کہ میرا سنگال میں اِس سے بڑا جنازہ پہلے دیکھنے کو نہیں ملا۔ ایسا لگا کہ اُن کی موت پر چرند و پرند بھی غم زدہ ہیں۔ لوگوں کا جم غفیر تھا ہر آنکھ پرنم تھی۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا خلیق صاحب میرے بہت اچھے دوست تھے۔ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ اپنے ساتھی کے آخری دیدار کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ وہ الفاظ دہرائے گئے کہ اگر کسی ساتھی کا کوئی حساب باقی ہے تو گھر والوں سے رابطہ کر لے۔ دل تو کیا کہ چیخ کر کہوں کہ ہاں کچھ ملاقاتوں کا اُدھار باقی ہے، کچھ وعدوں کا اُدھار باقی ہے۔’’جو ہو سکے تو لوٹ آؤ‘‘مگر یہ بھی سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہماری سمجھ سے باہر ہے اور جسے وہ پسند کرتا ہے اپنے پاس جلدی بُلا لیتا ہے۔ جیسے کہ اُن کے بارے میں چوہدری نثار علی خان صاحب نے بھی فرمایا کہ خلیق تم اللہ کے نیک بندے تھے تو اللہ بھی تم سے راضی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن پھول سے بچیوں کی حفاظت فرما۔ اُن کے حق میں ہماری دعائیں قبول فرما اور ہمیں آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرما۔
102