واقعہ کربلا اور دور حاضر کا مسلمان


از دختر محمد اعظم احساس (مرحوم) ڈھوک کالیاں کلرسیداں

محترم قارئین! اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے ہر سال محرم کے آتے ہی ماتمی جلوس نکالنے شروع کر دیے جاتے ہیں محفلیں سجائی جاتی ہیں مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی نام پہ نیاز دی جاتی ہے اور پورے مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ اس واقعے کو یاد کر کے امام رضی اللہ تعالی عنہ کا دکھ اور سوگ منایا جاتا ہے ۔

محرم الحرام کو واقعہ کربلا پیش آنے سے پہلے بھی انتہائی مقدس مہینہ تصور کیا جاتا تھا ۔اس مہینے میں اہل عرب جنگ و جدال سے باز رہتے تھے اور اس مہینے کے تقدس کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے باہمی جھگڑوں کو اس ماہ میں روک دیا جاتا تھا
کربلا کا واقعہ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو پیش ایا اور یہ ایسا واقعہ تھا جس نے اسلام کے چولیں ہلا ڈالیں پہلی بار مسلمانوں کی تلواریں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف اٹھیں عظیم الشان ہستیوں کو شہید کر دیا گیا اور یزید جیسے فتنے نے دنیا کے سامنے اسلامی تاریخ میں سیاہ الفاظ میں اپنی جگہ بنائی۔

اس سانحے کے بعد اہل سنت اور اہل تشیع کے دو بڑے گروہ سامنے آئے اور اسلام میں فرقہ بازی اور تعصب پیدا ہوا پھر مورخین نے جو تاریخ لکھی اس میں بھی تعصب پسندی کا انصر شاملِ حال رہا۔

دونوں فرقوں کے متعدد مورخین نے شہداء کی شہادتوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرانے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اس ضمن میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رہا

کربلا کے بیان میں تاریخ کی کتابوں میں اتنا تضاد ہے کہ ان میں واقع کی صحیح نوعیت کی پہچان کرنا بڑا مشکل امر ہے ذیل میں واقع کربلا کے وہ مختصر حالات اسلامی تاریخ آئمہ رجال کی کتب اور حقیقت پسند مؤلفین اور ان کی تحریروں کی مدد سے پیش کیے جا رہے ہیں جن پہ تقریباً ہر فرقے کے اسلامی مورخین متفق ہیں
امیر معاویہ نے اپنی وفات سے چار سال قبل اپنے فرزند یزید کو اپنا ولی عہد اور جانشین مقرر کر کے خلافت کو موروثی کر دیا ورنہ اس سے قبل ہمیشہ عوام کی رائے سے مسلمانوں کے خلیفہ کا چناؤ کیا جاتا تھا ۔

یزید نے تخت خلافت سنبھالتے ہی ان لوگوں پر توجہ مبذول کی جو اس کی بیعت کو تیار نہ تھے یزید نے والیے مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو خط بھجوایا اور کہلوایا کہ جن لوگوں نے ابھی تک بیت نہیں کی ان

کو اپنے ہاں بلا کر بغیر مہلت دیے ان سے بیعت لیجیے ولید نے سب سے پہلے نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا اور یزید کا خط پیش کیا پھر بیت کی درخواست کی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے تنہائی میں خفیہ بیت سے انکار کیا اور ان سے اجازت چاہی

اپ رضی اللہ تعالی عنہ اسی رات مکہ روانہ ہو گئے مکہ میں بغیر بیت کے تقریبا چار ماہ سے زیادہ کاعرصہ مقیم رہے اس مدت کے دوران اہل کوفہ نے اپ کو رابطہ کیا اور تقریبا ڈیڑھ سو خطوط اپ کی خدمت میں بھجوائے جس میں بار بار اپ کو کہا جاتا رہا کہ آپ کوفہ تشریف لائیں

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ جوق در جوق مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ لیے بیعت کرنے کے لیے پہنچنے لگے مسلم بن عقیل نے بذریعہ خط حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو صورتحال سے اگاہ کیا اور فورا تشریف لانے کی درخواست کی

دوسری جانب خفیہ بیت کے سلسلے کی خبر یزید کو بھی مل گئی اس نے سب سے پہلے گورنر کوفہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کر کے عبید اللہ بن زیاد کو بصرہ کے ساتھ ساتھ کوفہ کا بھی اضافی چارج دے دیا اور اس کو حکم دیا کہ فوراً کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل کو نکال دیا جائے یا قتل کر دیا جائے

عبداللہ بن زیاد نے مسلم بن عقیل کو گرفتار کروا لیا ادھر مسلم بن عقیل کا خط حضرت امام حسینرضی اللہ تعالی عنہ کوموصول ھو گیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جانے کی تیاریاں کرنے لگے آپ کے بھت سے رشتہ داروں نے اپ کو اہل کوفہ پر بھروسہ کر کے کوفہ جانے کے فیصلے سے روکنے کی کوشش کی اور خطرناک نتائج سے اگاہ کیا مگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سامنے اہل کوفہ کے خطوط تھے اور اپ نے مسلم بن عقیل کا بھی تسلی بخش خط وصول کر لیا تھا
چنانچہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپ نے رخت سفر باندھ لیا 8 ذوالحج یوم الترویہ کو اپنے قافلے کے ساتھ کوفہ کی سمت روانہ ہو گے اور اسی دوران مسلم بن عقیل ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے اب کوفہ میں صورتحال یکسر مختلف ہو چکی تھی۔

تاریخی کتب میں یہ بھی احوال درج ہے کہ جب اپ مقام “زبالہ” پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت اور کوفہ نہ انے کا پیغام بھی حضرت امام حسین کو موصول ہو گیا اپ نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے مسلم بن عقیل کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے اگے بڑھنے کا کہا لہذا جب اس مقام سے اگے بڑھے تو اپ کا سامنا ابن زیاد کے گھڑ سوار دستے سے ہوا اپ نے حالات کے پیش نظر قادسیہ اور کوفہ کی بجائے اپنا رخ کربلا کی طرف کر دیا کربلا میں پہنچ کر اپنے خیمے لگوائے

تقریباً تمام کتب میں جو اسلامی تاریخ کی ہیں، میں درج ہے کہ پہلے گفت و شنید کی گئی جس میں امام حسین نے تین شرائط بیان کی( اول )میں جہاں سے ایا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں( دوم) مجھے یزید سے براہ راست مل کر بیت کرنے دی جائے (صوم) یا مجھے ملک کی سرحدوں پہ جہاد کے لیے جانے دیا جائے ابن زیاد نے تینوں شرائط مسترد کر دیں

اس کی خواہش تھی وہ پہلے خود بیت لے پھر اپ کو یزید کے پاس پیش کرے امام حسین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا نتیجتاً لڑائی چھڑ گئی اور اس میں تمام رفقاء حسین شہید ہو گئے اور امام حسین کی شہادت کا سانحہ بھی پیش ایا یہ واقعہ 10 محرم الحرام 61 ہجری کا ہے قافلے کے لیے دریائے فرات کا پانی تک بند رکھا گیا

شدت پیاس سے نڈھال آل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق کا ساتھ دیتے ہوئے شہید ہوئے امام حسین عالی مقام کے تمام ساتھیوں نے باطل کے اگے ڈٹ کے مقابلہ کیا اور اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیے مگر باطل کے اگے اپنا سر نہ جھکایا
محترم قارئین! حق اور باطل کی جنگ تو آج بھی جاری ہے فلسطین کی سرزمین آج بھی کربلا کا منظر پیش کر رہی ہے کربلا کے سانحے میں کوفی خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے جبکہ آج کا ھر مسلمان کوفی بنا ہوا ہے اور فلسطین میدان کربلا بنا ہوا ہے اسلامی ممالک خاموش کیوں ھیں؟؟ انبیاء کی سرزمین فلسطین معصوم مسلمانوں کے خون سے لال ہوتی جا رہی ہے

ہر روز فلسطین کے مسلمانوں پہ ایک نئی قیامت بن کر گزرتا ہے خدارا اپنا محاسبہ کیجئے ہم کیا جواب دیں گے خدا کو اور اپ یہ فیصلہ خود کیجئے کہ ہم میں سے کون کوفہ والا ہے اور کون نہیں ہے کوفہ والوں نے جیسے حضرت امام حسین کو یقین دہانیوں کے خطوط بھجوا کر اور بلوا کر تنہا چھوڑ دیا اور سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتے رہے سنتے رہے مگر امام حسین کے قافلے کو نہ تو بچانے کے لیے پہنچ سکے نہ کوئی آواز اٹھائی اور نہ ہی کوئی احتجاج کیا آج کا مسلمان بھی وہی کوفی ہے کیا آج کے مسلمان پر جہاد اب بھی فرض نہیں ہوا

اہل غذہ پر بم پھینکے گئے گولیاں چلائی گئی اور اب ان کو پانی اور خوراک سے محروم رکھ کے مارا جا رہا ہے مسلمانوں کی باقاعدہ منظم طریقے سے نسل کشی کی جا رہی ہے کیا ہو گیا ہے ہمارے جوانوں کو ہمارے مسلمانوں کو انہیں اپنی مسلمان بہنوں بھائیوں کی اور ان معصوم بچوں کی آہ و بکا کیوں نہیں سنائی دیتی؟؟ ہمیں دنیاوی زندگی اور ذاتی مفادات کس قدر عزیز ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لی ہیں اور کان بھی بند کر لیے ہیں نہ ہمیں کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ ہمیں کچھ سنائی دے رہا ہے اور اگر دکھائی دے رہا ہے اور سنائی دے رہا ہے تو ہمارا احساس مر چکا ہے

بحیثیت قوم ہم اہل فلسطین کا اور مسجد اقصی کا مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کا درد کیوں نہیں محسوس کر پا رہے ؟؟ہم صرف اپنے لیے سوچتے ہیں اوروں کے لیے ہمارا احساس مر چکا ہے مت بھولیں کہ اہل فلسطین کے ساتھ آج جو بھی ہو رہا ہے وہ آنے والے وقت میں باقی مسلمانوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے

اج ضرورت ہے تو اس امر کی کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد ہو ورنہ یہ طاغوتی قوتیں تو ہمیں ایک ایک کر کے صفحہء ہستی سے مٹا دینے کے در پے ہیں
چنانچہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپ نے رخت سفر باندھ لیا 8 ذوالحج یوم الترویہ کو اپنے قافلے کے ساتھ کوفہ کی سمت روانہ ہو گے اور اسی دوران مسلم بن عقیل ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے اب کوفہ میں صورتحال یکسر مختلف ہو چکی تھی

تاریخی کتب میں یہ بھی احوال درج ہے کہ جب اپ مقام “زبالہ” پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت اور کوفہ نہ انے کا پیغام بھی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو موصول ہو گیا اپ نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے مسلم بن عقیل کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے اگے بڑھنے کا کہا لہذا جب اس مقام سے اگے بڑھے تو اپ کا سامنا ابن زیاد کے گھڑ سوار دستے سے ہوا اپ نے حالات کے پیش نظر قادسیہ اور کوفہ کی بجائے اپنا رخ کربلا کی طرف کر دیا کربلا میں پہنچ کر اپنے خیمے لگوائے تقریباً تمام کتب میں جو اسلامی تاریخ کی ہیں، میں درج ہے کہ پہلے گفت و شنید کی گئی جس میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے تین شرائط بیان کی( اول )میں جہاں سے ایا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں( دوم) مجھے یزید سے براہ راست مل کر بیت کرنے دی جائے (صوم) یا مجھے ملک کی سرحدوں پہ جہاد کے لیے جانے دیا جائے ابن زیاد نے تینوں شرائط مسترد کر دیں اس کی خواہش تھی وہ پہلے خود بیت لے پھر اپ کو یزید کے پاس پیش کرے امام حسین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا نتیجتاً لڑائی چھڑ گئی اور اس میں تمام رفقاء حسین شہید ہو گئے اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا سانحہ بھی پیش ایا یہ واقعہ 10 محرم الحرام 61 ہجری کا ہے قافلے کے لیے دریائے فرات کا پانی تک بند رکھا گیا شدت پیاس سے نڈھال آل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حق کا ساتھ دیتے ہوئے شہید ہوئے امام حسین عالی مقام کے تمام ساتھیوں نے باطل کے اگے ڈٹ کے مقابلہ کیا اور اپنی جانوں کے نظرانے پیش کیے مگر باطل کے اگے اپنا سر نہ جھکایا
محترم قارئین! حق اور باطل کی جنگ تو آج بھی جاری ہے فلسطین کی سرزمین آج بھی کربلا کا منظر پیش کر رہی ہے کربلا کے سانحے میں کوفی خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے جبکہ آج کا ھر مسلمان کوفی بنا ہوا ہے اور فلسطین میدان کربلا بنا ہوا ہے اسلامی ممالک خاموش کیوں ھیں؟؟ انبیاء کی سرزمین فلسطین معصوم مسلمانوں کے خون سے لال ہوتی جا رہی ہے ہر روز فلسطین کے مسلمانوں پہ ایک نئی قیامت بن کر گزرتا ہے خدارا اپنا محاسبہ کیجئے ہم کیا جواب دیں گے خدا کو اور اپ یہ فیصلہ خود کیجئے کہ ہم میں سے کون کوفہ والا ہے اور کون نہیں ہے کوفہ والوں نے جیسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو یقین دہانیوں کے خطوط بھجوا کر اور بلوا کر تنہا چھوڑ دیا اور سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتے رہے سنتے رہے مگر امام حسین کے قافلے کو نہ تو بچانے کے لیے پہنچ سکے نہ کوئی آواز اٹھائی اور نہ ہی کوئی احتجاج کیا آج کا مسلمان بھی وہی کوفی ہے کیا آج کے مسلمان پر جہاد اب بھی فرض نہیں ہوا اہل غذہ پر بم پھینکے گئے گولیاں چلائی گئی اور اب ان کو پانی اور خوراک سے محروم رکھ کے مارا جا رہا ہے مسلمانوں کی باقاعدہ منظم طریقے سے نسل کشی کی جا رہی ہے کیا ہو گیا ہے ہمارے جوانوں کو ہمارے مسلمانوں کو انہیں اپنی مسلمان بہنوں بھائیوں کی اور ان معصوم بچوں کی آہ و بکا کیوں نہیں سنائی دیتی؟؟ ہمیں دنیاوی زندگی اور ذاتی مفادات کس قدر عزیز ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لی ہیں اور کان بھی بند کر لیے ہیں نہ ہمیں کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ ہمیں کچھ سنائی دے رہا ہے اور اگر دکھائی دے رہا ہے اور سنائی دے رہا ہے تو ہمارا احساس مر چکا ہے بحیثیت قوم ہم اہل فلسطین کا اور مسجد اقصی کا مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کا درد کیوں نہیں محسوس کر پا رہے ؟؟

ہم صرف اپنے لیے سوچتے ہیں اوروں کے لیے ہمارا احساس مر چکا ہے مت بھولیں کہ اہل فلسطین کے ساتھ آج جو بھی ہو رہا ہے وہ آنے والے وقت میں باقی مسلمانوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اج ضرورت ہے تو اس امر کی کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد ہو ورنہ یہ طاغوتی قوتیں تو ہمیں ایک ایک کر کے صفحہء ہستی سے مٹا دینے کے در پے ہیں

کون رکھے گا ہمیں یاد اس دور خود غرضی میں،
حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں،
ہم کون ہیں کیا ہیں باخدا یاد نہیں،

اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں