238

واقعہ معراج النبیﷺ اور سائنسی حقائق/قاضی محمد عمران

اللہ کریم نے اپنے محبوب مکرمﷺ کو بے شمار معجزات سے نوازا ، اگر یہ کہا جائے کہ آپ سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا۔ گزشتہ امم کی جانب انبیا کرام مبعوث ہوتے رہے اور انہیں معجزات عطا کیے جاتے رہے مگر دیگر تمام انبیا کے کمالات اور معجزات کو مجتمع کرلیں تو سرکار کل عالمﷺ کی ذات یکتا میں نظر آئیں گے۔ معجزہ در حقیقت دین متین کی حقانیت اور کسی نبی کی نبوت کی دلیل قائم کرنے کی غرض سے منکرین کے سامنے محیر العقول مشاہدات کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تاریخ اسلام اور کتب احادیث نبی آخرالزماںﷺ کے کثیر معجزات کا ذکر کرتی ہیں۔ انہی معجزات میں ایک واقعہ معراج بھی ہے۔ حکمت خداوندی کے مطابق کچھ عرصہ کے لیے نزول وحی کا سلسلہ منقطع ہوا تو کفار و مشرکین نے یہ طعنہ زنی کی کہ محمد ﷺ کا خدا انہیں چھوڑ گیا ہے۔ جب کفار کی یہ گفتگو سرکار کل عالم ﷺ کی طبیعت پر ناگوار گزری تواللہ نے کفار کی اس ناپاک خیال کے رد میں سورہ ضحی نازل فرمائی ۔جب کفار نے آپ کی شان میں گستاخی کی تو اللہ کریم نے قرآن کی آیات نازل فرماکر آپ کی شان کا دفاع کیا۔ جب سرکار کل عالم کی شان کا اظہار مقصود ہوا تو معراج کا واقعہ رونما ہوا جس میں اللہ کریم نے اپنے محبوب کو ام ہانی کے گھر سے رات کی تاریکی میں رات کے ایک خاص لمحے میں پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر سبع سماوات سے ارفع تر عرش معلی پر مہمان بنا کر اپنا دیدار بھی عطا فرمایا اور تاریخ انسانی کی پہلی اور واحد معراج جسمانی کا شرف بھی بخشا۔ اس معراج کا مقصد عالم دنیا پر محبوب کبریاﷺ کے مقام و مرتبہ کو واضح کرنا تھا ، یعنی آپ کو اللہ کریم نے وہ مقام عطا فرمایا جو کائنات میں کسی اور کو عطا نہ ہوا۔انبیا کو ایسے معجزات عطا ہوتے رہے جو اس فن اور علم سے متعلق تھے جس کا عروج اس نبی کے خاص زمانے میں تھا۔ مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کے دور میں جادو کو بڑا ہنر تصور کیا جاتا چنانچہ قرآن کی شہادت کے مطابق مصر کے بڑے نامی گرامی جادو گروں کا توڑ حضرت موسیٰ ؑ نے جس معجزے کے ذریعے کیا اسے فرعون نے جب دیکھا تو کہا کہ موسیٰؑ بڑا جادوگر ہے۔مگر تمام جادو گر موسیٰؑ کے سامنے سجدے میں گر گئے اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لیا۔ حضرت عیسیٰؑ کا دور بلاشبہ طب کا دور تھا چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کو معجزات بھی طب سے متعلقہ عطا ہوئے جیسے بیماروں کوتندرست کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا۔اب وقوع قیامت تک خاتم النبیبین ﷺ کا زمانہ ہے اور اس زمانے میں سائینس نے جن میدانوں میں سب سے زیادہ ترقی کی ان میں سپیس اور ٹائم سائنسز ہیں یہی وجہ ہے کہ معراج کا تعلق سپیس اینڈ ٹائم سے ہے تاکہ علم اور تحقیق کے سمندر میں غوطہ زن ہونے والے جب واقعہ معراج پر غورکریں تو حضرت موسیٰؑ کے جادوگروں کی طرح عظمت مصطفیﷺ کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں۔ اسی معراج سے ہمارے غم خوار نبی ﷺ ہمارے لیے نماز کا تحفہ لائے اور اسے مومن کی معراج کہا گیا۔معراج کے واقعات کا تسلسل حیرت انگیز بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔معراج کے اس سفر میں آپ ؐ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی امامت کروائی ، مختلف آسمانوں پر مختلف انبیا سے ملاقات فرمائی۔قرآن حکیم نے اس جسمانی معراج مصطفیﷺ کا تفصیلی تذکرہ سورہ نجم میں فرمایا۔حضرت جبرائیل ؑ جنت سے براق لائے جس پر سید الانبیا سوار ہوکر سوئے منتہی کو چلے۔ جدید سائنسی دور میں جہاں بہت سی اسلامی تعلیمات کی علت و حکمت سائینسی قوانین کی روشنی میں پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے وہیں متفرق علما نے معراج کو سائنسی قوائد کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔سائینس کی رو سے جب بھی کوئی مادی جسم کرہ ارضی کی حدوں سے نکل کر خلا میں محو پرواز ہو جائے تو زمینی وقت اور خلا یعنی سپیس اینڈ ٹائم میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مگر یہ سفر روشنی کی رفتار یا اس رفتار کی حدوں سے قریب ہونا چاہیئے۔آئین سٹائین کے نظریہ اضافت اور توانائی اور کمیت کی مساوات کے مطابق روشنی کی رفتار یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ سے سفر کر تا مادہ توانائی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور کائنات کے طول و عرض میں اسی رفتار سے محو پرواز اجسام کا زمینی وقت صفر ہوتا ہے۔ ان سائینسی حقائق کو سمجھنے کے بعد اگر واقعہ معراج پر غور کریں تو ان کا اس واقعہ سے گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے۔ سرکار کل جہاں ﷺ نے براق پر سفر کیا جو برق کی جمع ہے جبکہ برق کا مفہوم ایسی سواری کا ہے جو برقی رفتار یعنی سپیڈ آف لائٹ سے سفر کرنے کی استعداد کار کی متحمل ہو۔یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث کی گواہی ہے کہ جب سرکار واپس تشریف لائے تو بستر گرم تھا گویا کہ سرکارﷺ زمینی وقت کے فقط چند لمحات میں واپس تشریف لے آئے۔اسکی وجہ بلاشبہ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کی ذات جان کائنات ہے جب آپ دنیا سے عرش بریں کی طرف روانہ ہوئے تو زمینی وقت تھم گیا، چنانچہ آپ ؐ واپس تشریف لائے تو وقت روانہ ہو چلا۔ ان توجیہات کا اپنا مقام مگر درحقیقت کائنات کانظام شان مصطفیﷺ کے تابع ہے۔ اگر حضرت علیؓ آپؐ کی خدمت میں ہوں تو ان نماز عصر بچانے کے لیے ڈوبا سورج واپس پلٹ آتاہے، انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوجاتا ہے، کبھی بلالؓ کی اذان کے بغیر سحر طلوع نہیں ہوتی اور جب معراج کا وقت ہو تو وقت تھم جائے اور عظمت مصطفی ﷺ کے ادب میں ساکن ہوجائے۔اللہ کریم نے ہم پر بہت بڑافضل کیا جب ہمیں ایسی عظمتوں والے نبی کا امتی بنایا۔ اب بحیثیت امت ہم پر بھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کا احساس ہمیں بھی ان عظمتوں کی معراج عطا کر سکتا ہے۔ ایسی شان اور معراج والے نبی کی امت آج زبوں حالی اور تنزل کا شکار فقط اسی باعث ہے کہ نبی محتشم ﷺ کے راستے اور طریقے کو ترک کر دیا۔ نماز جو مومن کے لیے معراج کا تحفہ بن کر آئی اور دن میں پانچ بار اللہ کریم کی بارگاہ کی حاضر ی کا ذریعہ ہے اسے ہم نے ترک کردیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسوہ رسول ؐ کو اختیار کیا جائے۔ نبی ؐ کی سیرت کو اپنایا جائے اورانسانیت کی فلاح ، کامرانی اور امن جو مشن دین اسلام کا بنیادی مقصد ہے اسے ہر لمحہ یا د رکھیں اور اپنی حیات کا سفر اسی کی روشنی میں طے کریں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں