100

نچلی سطح تک اقتد ار با اختیار عو ام کی ضما نت

طاہرہ ارفاء
مشہو ر کہا وت ہے نچلی سطح تک اقتد ار‘ عو ام ہو ئی با اختیا ر۔عا م مشا ہد ہ ہے کہ مقا می قیا دت مقا می مسا ئل کا مقا می حل نکا لنے میں سب سے ز یا دہ مو ثر ثا بت {jcomments on} ہو تی ہے کیو نکہ مقا می مسا ئل کا حل مقا می نما ئندوں کے ذ ر یعے ہی ممکن ہے جو ہم میں سے ہی ہو تے ہیں، یہ مقا می نما ئند ے جہا ں ہمیں اپنا ئیت اور ہما را حصہ ہو نے کا احسا س دلا تے وہیں وہ مقا می مسا ئل کو ز یا دہ بہتر طر یقے سے سمجھتے ہیں اور ان کو تر جیحی بنیا دو ں پر حل کر نے کی استطا عت رکھتے ہیں۔مقا می حکو مت کسی بھی ملک یا صو بے کے اندر چھو ٹی انتظا می اکا ئیوں کی حکو مت ہو تی ہے جس کے ذ ر یعے قو می یا صو با ئی حکو مت اپنے کچھ اختیا را ت نچلی یعنی ضلع، تحصیل یا یو نین کو نسل سطح پر منتقل کر تی ہے تا کہ چھو ٹی سطح کے انتظا می معا ملا ت مقا می لوگو ں کی شر کت اور تعا ون سے حل کئے جا سکیں۔بلا شبہ مقا می حکو مت لو گو ں کے مسا ئل کا وا حد اور طا قتور حل ہے کیو نکہ یہ نہ صرف لو گو ں کے قر یب ہے بلکہ اس میں انکی عملا شمو لیت بھی مو جو د ہے اور لو گ نہ صر ف اس حکو مت میں خود شامل ہو سکتے ہیں بلکہ اس نظام حکو مت کی و سا طت سے ہو نے والے کا مو ں کی نظر داری بھی کر سکتے ہیں۔ لو گوں کی اس نظا م میں شمو لیت سے مقا می مسا ئل کی نہ صر ف صحیح طر یقے سے چھان بین ہو سکتی ہے بلکہ مقا می لو گ خو د بھی اپنے مسا ئل کے حل کے لئے بہتر را ستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ مقا می نظام کو خو اتین کا نظام بھی کہا جا تا ہے کیو نکہ اس نظام کے تحت پا کستا ن کی سیا ست میں خو اتین کی شر ا کت کے معا ملے میں اہم پیش رفت 33%نشستوں کا مقر ر کر نا تھا۔اس کے علا وہ مقا می حکو مت کی دیگر خصو صیا ت میں آ زا د عد لیہ، مقامی حکو مت میں سر برا ہ کا جمہو ری طو ر پر منتخب کیا جانا، عوا می نما ئندوں کا بآختیا ر ہو نا اور اختیارات کا نچلی سطح یعنی یو نین کونسل کی سطح تک منتقل ہو نا ہے۔پا کستان کی تا ریخ میں پہلا جا مع اور وا ضح مقا می نظام1959 میں صد ر ایو ب کے دور میں پیش کیا گیااور اس کے بعد مختلف ادوار سے گز ر تا ہوا یہ نظام مو جو دہ دو ر حکو مت میں پھر سے را ئج کیا گیا جس کا سہر ا بلا شبہ و ز یر اعلیٰ شہباز شر یف کو جا تا ہے۔بلد یا تی نظام نچلی سطح پر عو ام کے مسا ئل کے حل کے لئے انتہا ئی اہم ہے اور پنجاب میں بلد یا تی حکو متیں فعا ل ہو چکی ہیں ۔عو ام کے مسا ئل ان کی د ہلیز پر حل کر نے کے لئے بلد یا تی نظام کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ دراصل بلد یا تی ادا رے جمہو ر یت کی نر سر یاں ں ہیں جہا ں عو ام کے منتخب بلد یا تی نما ئندوں کی سیا سی تر بیت ہو تی ہے اور یہیں سے عوا می نما ئندے صو با ئی اور قو می سطح پر ملک و قو م کی خد مت کر نے کی اہلیت و صلا حیت سے لیس ہو تے ہیں۔ پنجاب حکو مت نے صو با ئی ما لیا تی کمیشن ایو ارڈ کے ذ ر یعے بلد یا تی حکو متوں کے و سائل میں ار بو ں رو پے کا اضا فہ کیا ہے اور ظا ہر ہے کہ یہ اربوں رو پے عو ام کی بہبو د پر خر چ ہو نے ہیں اور ان کے خر چ کا اختیار بھی عوام کو ہی ہو گا۔
اس سلسلے میں را ولپنڈ ی سے بلا مقا بلہ منتخب ہو نے والے مےئر راولپنڈی سردار نسیم خان نے اس عز م کا اعا دہ کیا کہ وہ را ولپنڈ ی کے شہریوں کو بہترین معیا ر ز ند گی فر اہم کرنے کے لیئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے ۔ ا ب تک را ولپنڈی میں کئی تر قیا تی منصو بے اور عو امی فلا ح کے پر وجیکٹ پا یہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں جن میں کا ر ڈیا لو جی سنٹر، میٹرو بس پرا جیکٹ اور شہبا ز شر یف پا رک اہم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ درجنوں تعلیمی اداروں اور ہسپتا لو ں کی اپ گر یڈ یشن کا کا م تیزی سے جا ری ہے مز ید یہ کہ را ولپنڈی شہر سے ناجائزتجا وزات کا خا تمہ اورشہر یوں کو تمام دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں اور اس سلسلے میں اہم پیش ر فت پا کستان میں مقا می حکو متی سر برا ہو ں کی مجمو عی صلا حیت میں اضا فے کے لئے نئے انتظا می سسٹم کے تحت 500منتخب بلد یا تی سر برا ہوں کو تر بیت کی فرا ہمی ہے جو کہ 14سے28 فر ور ی 2017تک جا ری ر ہے گی اور اس کے سا تھ ساتھ تر قیا تی کا موں کے لئے پی ایف سی کا مختص کر دہ بجٹ17 ارب سے بڑ ھا کر43.2 ارب رو پے کر دیا گیا ہے ۔ اس جمہو ری نظا م کے تحت احتساب کا طر یقہ کار بہتر ہو کر جمہو ری بنیا دوں پر مقا می کمیو نیٹیز کے ما تحت مقا می انتظا میہ کام کر سکے گی اور بیور و کر یسی کی مدا خلت اور کنٹرول سے قطعی آ زا د ہو کر کام کر نے کا ما حو ل پروان چڑ ھے گا کیو نکہ و ز یر اعلیٰ پنجاب کی جا نب سے یہ و ا ضح کر دیا گیا ہے کہ ان بلد یا تی ادا روں کو نما ئشی ادا رے نہیں بننے دیا جا ئے گا اور ان کے تر قیا تی بجٹ میں مز ید اضا فہ کر کے ان ادا روں کو پو ر ی طر ح فعا ل اور متحر ک بناے جا ئے گا تا کہ ان ادا روں کی تو سط سے نہ صر ف عو ام حقیقی معنوں میں با ا ختیا ر اور شر یک اقتد ار بنایا جا سکے گا بلکہ وہ اپنے اپنے حلقو ں اور یو نین کو نسلوں میں مقا می مسائل کو اپنی تر جیحا ت کے مطا بق حل کر سکیں گے۔ ان تما م تر اقد امات کے نتیجے میں امید کی جا سکتی ہے کہ عوام کے ٹیکسو ں کے بہتر ین مصر ف کو یقینی بنا کر عوا می و سا ئل انہی کی فلا ح و بہبود پر خر چ کر تے ہو ئے مز ید عوامی تر قیا تی منصوبوں کا آ غا زہوگااور بلند با نگ د عو ؤں کے بجا ئے عملی طو ر پر عو ام کو بلند معیا ر زندگی فرا ہم کر نے کے لئے اقدامات کیے جا ئیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں