307

نومبر کی سرد شام میں یادگار محفل مشاعرہ

تعلیمات حسینؑ سے اس قدر دور کیوں؟

انحراف انٹرنیشنل کے زیراہتمام دسمبر 2019 کے آخری عشرے میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس کا انعقاد بار ایسوسی ایشن گوجرخان کے ہال میں دسمبر کی یخ بستہ شام میں کیا گیا تھا

جس کے میزبان معروف قانون دان و ادبی شخصیت احمد ادریس مرزا تھے، راقم کو اس مشاعرے میں دعوت دی گئی تھی، منتشر ذہن کے ساتھ شرکت کی کیونکہ میں نے لوگوں سے سن رکھا تھا کہ مشاعرے مغز کھپائی والے ہوتے ہیں،

راقم نے سوچا حاضری لگوا کر واپس آ جاوں گا، یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ میں کسی مشاعرے میں شرکت کر رہا تھا، میزبان شعراء کے بعد بیرون شہر سے آنے والے مہمانوں کو مائیک پہ دعوت دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو راقم نے گھڑی کی طرف دیکھا تو پریشانی لاحق ہوئی

کہ سٹیج پہ بیٹھے شعراء تو ابھی سارے باقی ہیں اور معلوم نہیں کہ مشاعرہ کب ختم ہو گا، مہمان شعراء کو سننا شروع ہوئے تو پھر گھڑی کی ٹک ٹک بھول گئی، ایک سے بڑھ کر ایک، دل کھول کر داد دینے کو جی چاہا اور دل کھول کر داد بھی دی،

شعراء بھی خاص اور سننے والے سامعین بھی بہت گنے چنے اور خاص الخاص تھے، یقین کریں بہت مزہ آیا اور پھر راقم نے اس مشاعرے کی روداد بھی اس وقت لکھی تھی۔قارئین! آپ بھی دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ وہ مشاعرہ پانچ برس قبل کا تھا

اس کی روداد بھی اس وقت لکھی تھی تو دوبارہ اتنی تمہید باندھنے کا مقصد و مدعا کیا ہے؟؟ یہ بھی بہت دلچسپ کہانی ہے۔اس مشاعرے کے بعد مجھے اس جیسا مشاعرہ درکار تھا

جو پھر اس کے بعد پانچ برسوں تک نہ میسر آیا۔ ہر 6 ماہ بعد برادرم احمد ادریس مرزا سے تجسس بھرے انداز میں معلوم کرتا کہ مشاعرہ کب کروا رہے ہیں

تو وہ کہتے کہ بس کچھ کرتے ہیں اور یہ بس کچھ کرتے کرتے پانچ برس کا عرصہ گزر گیا یہاں یہ بات بھی انتہائی قابل ذکر ہے کہ اچھا مشاعرہ منعقد کرانے کیلیے بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے اور بہت سارا وقت اور سرمایہ درکار ہوتا ہے ورنہ مغز کھپائی والے مشاعرے تو آپکو ہفتے کے ساتوں دن دستیاب ہو سکتے ہیں۔

یکم نومبر کو احمد ادریس مرزا کا میسج موصول ہوا کہ یوم اقبال کی مناسبت سے 9 نومبر کی شام محفل مشاعرہ ہے تو لازمی آنا ہے،

میسج موصول ہوا تو یقین کریں دل باغ باغ ہو گیا، حالانکہ بھولنے والی بات تو نہ تھی لیکن مشاعرے کے دن بھی احمد ادریس مرزا کا یاددہانی کا میسج آیا اور پھر حسب دعوت وقت پہ جب فوجی فاؤنڈیشن کالج سٹی کیمپس میں پہنچا تو تقریباً سارے مہمانوں کی آمد ہو چکی تھی،

مہمان شعراء کے چہرے میرے لیے نئے تھے، مجھ سے اگلی نشست پہ بڑے بھائی طلعت سیال اور ہمارے مرحوم دوست راجہ جاوید اقبال کا فرزند ڈاکٹر روحان احمد براجمان تھے تو مزید مسرت ہوئی کہ اب مشاعرہ سننے کا مزید لطف آئے گا

، چند منٹ بعد ہی باقاعدہ مشاعرے کا آغاز ہو گیا اور برادرم احمد ادریس مرزا نے تلاوت کلام پاک سے آغاز کر کے روحان احمد کو نعت کی دعوت دی، روحان احمد نے محسن نقوی شہید کا نعتیہ کلام اتنے احسن انداز میں پڑھا کہ سامعین پہ کیفیت طاری ہو گئی

جس کا برملا اظہار صدر محفل نامور نظم و غزل نگار ڈاکٹر وحید احمد نے اپنے خطاب کے دوران کیا اور انکا کہنا تھا کہ میں تو اس سحر سے ابھی تک نہیں نکل پایا کہ ”کلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے”

۔ سبحان اللہاحمد ادریس مرزا کا ایک شعر جو مجھے بہت خوب لگا:-
نہ جانے دوڑتا جاتا ہے کونسی جانب
یہ وقت عرصہ شام و سحر سے نکلا ہوا

محفل مشاعرہ میں ممتاز شاعر افضل خان، فیصل عزیز، عمران عامی، سعید راجہ بطور خاص شریک ہوئے، دیگر شعراء نے بھی اپنے کلام پیش کئے

جن میں پروفیسر سید نسیم تقی جعفری، امر روحانی، عبدالقادر تاباں، عقیل شاہ، رحمان حفیظ، تجمل جرال، مہراز وقاص احمد اور آفاق خالد کی شرکت نے محفل کو چار چاند لگا دیئے

۔مزاح کے حوالے سے خوشبو بکھیرنے والے شاعر فیصل عزیز نے اپنا کلام ”ھذا” پیش کر کے سامعین کے لبوں پہ مسکراہٹ نہیں بلکہ قہقہے بکھیر دیئے انکے

کلام کا مصرعہ ”ایک ڈکیتی” کے متعلق تھا کہ:-
”قبل از ڈاکا غزل دیکھیے تازہ ھذا”

اس محفل کے سامعین میں پروفیسر شاہجہاں اکبر، پروفیسر ہمایوں، راجہ محمد جواد، سابق صدر پوٹھوہار پریس کلب احمد نواز کھوکھر طلعت سیال، راقم، مرزا ندیم،سید منتظر امام، گوجرخان بار کے سابق صدر راجہ ظہور منظور، بلال ناصری، راجہ جواد ارسلان، نایاب خاور اور مقامی تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے بھرپور شرکت کی

، اس تقریب کو پرنسپل فوجی فاؤنڈیشن کالج اسد علی کی ذاتی دلچسپی سے انعقاد پذیر کیا گیا، تقریب کے آرگنائزر دانش رضا لائبریرین فوجی فاؤنڈیشن کالج نے بڑے اچھے انداز میں تمام معاملات کو سر انجام دیا اور آنے والے تمام سامعین اور شعراء سے داد بھی وصول کی

، تقریب کے دوران یوم اقبال کے حوالے سے کیک بھی کاٹا گیا، تقریب کے آخر میں تقریب کے صدر ڈاکٹر وحید احمد نے شاندار ادبی محفل کے انعقاد پر شعراء، سامعین اور انحراف انٹرنیشنل کو خراج تحسین پیش کیا

، ڈاکٹر وحید احمد نے اپنی لکھی ہوئی غزل و نظم جن الفاظ کے ساتھ پیش کیں وہ انہی کا خاصہ ہے اور انکے انداز تکلم اور الفاظ کے چناو کے سحر سے شاید میں کبھی نکل نہ پاوں تقریب ختم ہوئی تو تمام شرکائے مشاعرہ کے لیے خصوصی ڈنر کا اہتمام بھی کیا گیا،

کھانے کا اہتمام کالج کے گراونڈ میں تھا جب ہم ہال سے باہر نکلے تو 9 نومبر کی شب ٹھنڈی ہواوں نے جس انداز میں سب کا استقبال کیا وہ قابل دید تھا، کھانے میں ڈشز بھی خاص تھیں

جن کی لذت سالوں یاد رہنے والی ہے کیونکہ وہ محض کھانا نہیں تھا بلکہ اس میں ادب کے حصہ داروں کی محبت شامل تھی،

احمد ادریس مرزا نے انحراف انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے اور فوجی فاونڈیشن کالج کے تعاون سے ایک اور شاندار اور باکمال مشاعرہ منعقد کر کے میرے دل کی تشنگی کو مزید بڑھا دیا ہے، کیونکہ ایسے شاندار لوگوں کو سننے کی اب ہمیشہ جستجو رہنے لگی ہے۔

اختتام پہ عمران عامی کے مصرعے پوٹھوہاری میں پڑھیں اور لطف لیں:-
گُڈیاں نال پٹولے ہوسن

سنگتاں نال تے رولے ہوسن
ڈھوکے چوں خشبو پئی اشنی
اج فیر بال اُس کھولے ہوسن

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں