107

نجی تعلیمی ادارے مشن یا کاروباری مراکز

کسی بھی ملک و معاشرے میں تعلیم کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے تعلیم معاشرے میں موجود بگاڑ کو ختم کرنے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتی ہے تعلیم انسان کو عقل و شعور کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں ہونے والے تغیر و تبدل میں اہم کردار ادا کرتی ہے تعلیم انسانی زندگی کا وہ واحد جزو ہے جس سے سیکھنے کا عمل ماں کی گود سے لے کر قبر میں جانے تک جاری رہتا ہے علم حاصل کرتے ہوئے اگر انسان کی موت واقع ہو جائے تو اس کو شہید کی موت قرار دیا جاتا ہے اور شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے علم کا حصول ہر مرد و عورت کے لیے ضروری ہے کوئی بھی معاشرہ جب ترقی کی منازل کو طے کرتا ہے تو وہ معاشرہ صرف اور صرف تعلیم کی بنا پر ہی ترقی پاتا ہے ایک انسان کی تربیت جب ماں کی گود سے ہی ہونا شروع ہو جاتی ہے پھر وہ زندگی کے مختلف تجربات سے ہوتا ہوا ایک وقت آتا ہے جب اس کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے وہ انسان اپنی ان بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے بھی بہت کچھ سیکھ کے ہی دم توڑتا ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک عظیم میں علم کے نام پر پیسہ بٹورنے والے ادارے جنہوں نے تعلیمی ڈھانچے کو انتہائی تباہ کن حالات تک پہنچا دیا ہے کچھ عرصہ سے تعلیم کے نام پر ایک کاروبار شروع کر دیا گیا ہے جس کو ہم پرائیویٹ سکولوں کا نام دیتے ہیں ان میں سے اکثریت نے ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے جس نہ صرف ایک باپ کی محنت سے کی ہوئی مزدوری کو ہڑپ کیا بلکہ ان روشن ستارہ بچوں کے مستقبل کو بھی مانند کرنے کی سازش کی یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے بچے تو ایلیٹ کلاس کے سکولوں میں پڑھتے ہیں اور یہ خود دوسروں کے بچوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کی چال میں مگن ہیں اس مافیا نے ہزاروں روشن دیے بجھا دئیے ہیں ان کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں آج تک ان لوگوں کا احتساب کرنے کے لیے کسی ادارے کے قیام کو عمل میں نہیں لایا گیا یہ لوگ عوام سے ان کے منہ میں ڈالا ہوا نوالہ بھی چھیننے کو تیار ہیں پچھلے دنوں میں ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے بتایاکہ میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی ایک مقامی نجی سکول میں داخل کروایا ہوا تھا جبکہ کچھ عرصہ سے میں ان کی تعلیمی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا جس کی بنا پر اس سال میں نے ان کا نام اس سکول سے خارج کروادیا کچھ دن گزر جانے کے بعد اس سکول کے پرنسپل صاحب کا فون آیا انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے بچوں کی کتابوں پر جلدیں چڑھوا دی ہیں آپ آکر ہمیں اس مد میں آنے والے اخراجات ادا کر جائیں میں یہ بات سن کر حیران رہ گیا کہ یہ لوگ اس حد تک بھی گر سکتے ہیں؟وہ بھی تعلیم کے نام پر؟ہزاروں ایسے واقعات موجود ہیں جو اس پرائیویٹ سکول مافیا کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں میرا سوال ہے ان پرائیویٹ سکول مالکان سے ہے جو تعلیم کے نام پر کاروبار شروع کیے ہوئے ہیں کہ وہ کیوں اس غریب عوام کا منہ کا نوالہ بھی چھیننے کے درپہ ہیں ان کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے یہی بہتر سکوپ ملا ؟کبھی تو تعلیم کو انسان میں شعور کی بیداری کے لیے پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی کے نام پہ لوٹ مار؟یہ دکانیں آخر کب بند ہوں گی آخر حکومت کب جاگے گی ؟سکولوں میں جتنا ضروری سی سی ٹی وی کیمرے اور خاردار تاریں لگا نا ہے اتنا ہی ضروری ہے کہ ان سکولو ں میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں دکانوں جیسا کاروبار سکولوں کے نام پر کیا جا رہا ہے ان کو لگام کون ڈالے گا؟ ان کا احتساب کون کرے گا؟ کیاآنے والی نسلوں کا مستقبل یہی ہوگا اکیڈمیز کے نام پہ پیسہ کمایا جا رہا ہے تعلیم کم اور کاروبار زیادہ ہے جس کو اور کوئی کام نہیں ملتا وہ سکول کھول کے بیٹھ جاتا ہے تعلیم کو عام کیا جائے مگر معیار کے ساتھ اس میں کسی بھی قسم کی بد عنوانی کا عنصر موجود نہیں ہونا چاہیے یہ کام انتہائی نیک نیتی اور خالصتا ہونا چاہیے ایک بچہ جو سال بھر سکول آتا ہے فیسوں کی مد میں تو اسے ہزاروں روپے وصول کر لیے جاتے ہیںlلیکن جو اس کا (learnning)یعنی سیکھنے کا عمل اسی جگہ رک جاتا ہے جہاں سے اس کی کلاس کا آغاز ہو تا ہے تو ایسے میں ہم قصوار کس کو تصور کریں جس سکول میں پڑھانے والے ٹیچرز ہی مڈل ،میٹرک، ہوں گے تو بچے کے سیکھنے کا عمل تو ضرور رکے گاوہ تو ضرور متاثرہو گاوہ ٹیچرز 7th.8thکلاس کے طلبہ کو کیا پڑھائیں گے ٹیچرز ہی جب کوئی اور نصاب کو پڑھ کر آئے ہوں گے تو بچوں کی گروتھ کیسے ممکن ہو گی اس میں اس باپ کا کیا قصور جو سال بھر مزدوری کر کے بچوں کے پیٹ پالتا ہے اور سکولوں کی فیسیں ادا کرتا ہے اس باپ کے بھی خواب ہوں گے کہ اس کا بچہ آسمانوں کو چھوئے اس کے بھی تو احساسات ہیں سکولوں میں چیکنگ کا نطام انتہائی موثر ہونا چاہیے میں سیکیورٹی چیکنگ کی بات نہیں کر رہا میں اس چیکنگ کی بات کر رہا ہوں جس میں سکول مالک سے لے کر بچوں کو پڑھانے والے ٹیچرز یا ٹیچر کا احتساب ہو سکے ان کو کوئی پوچھنے والا ہو سکے تاکہ یہ لوگ کسی بھی بچے کے مستقبل سے نہ کھیل سکیں تعلیم میں دوہرا معیار اپنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مافیا صرف اور صرف پیسہ بٹورنے کے لیے اپنا کاروبارتعلیم کے نام پر جاری رکھے ہوئے ہیں ان مسائل کی نشاندہی کے لیے میڈیا کو بھی پنا کردار ادا کر نا ہو گا ایسے لوگوں کو معاشرے میں بے نقاب کرنا ہو گا جو لوگ معاشرے کو اپنے ہاتھوں سے بگاڑ رہے ہیں بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ایسے لوگوں کی وجہ سے اس فیلڈ میں کام کرنے والے اچھے لوگوں کی بھی بدنامی ہو رہی ہے یہ لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کوتو محفوط دیکھنا چاہتے ہیں اپنے بچوں کو تو ہائی کلاس سکولوں میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں لیکن اپنے ہی سکولوں میں اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے کیونکہ دوہرا معیار جو اپنایا ہوا ہے حکومت وقت سے گزارش ہے کہ وہ آنکھیں کھولے اور ایسے لوگوں کے احتساب کے لیے ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لائیں جو ان کرپٹ عناصر کو جھکڑ سکیں اور مستقبل میں ان کی روک تھا م کے لیے موثر حکمت عملی سامنے لاسکیں ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں