نارہ ایک مسلسل پھیلنے والا کمرشل مرکز ہے، مٹور روڈ، لہڑی روڈ، پوٹھی روڈ، اولڈ بازار، بیور روڈ ہر سمت پھیل رہا ہے جہاں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔ سرکاری اداروں میں پوسٹ آفس نارہ، نیشنل بینک، گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول، بوائز ہائیر سکینڈری سکول، گرلز ہائی سکول بنیادی مرکز صحت اور یونین کونسل اپنی حدود میں کام کررہے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک نجی بینک بھی سروس دیرہا۔
ٹورازم ہائی وے بننے کے بعد کشمیر بالخصوص کوٹلی پلندری وغیرہ کی پبلک و ہیوی ٹرانسپورٹ کا گزر یہاں سے بڑھنے لگا ہے۔ مقامی ٹریفک بھی روزانہ کی بنیاد پہ آتی ہے جو ٹریفک وارڈن نہ ہونے کیوجہ سے ٹریفک کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ بینک سکول اور کمرشل ایریا انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے پارکنگ کے مسائل بھی ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف رینٹ کار پارکنگ اور مین روڈ پہ اڈے مزید مسائل پیدا کرتے ہیں، راقم کی کاوش سے متعدد بار ٹریفک وارڈن ذمہ داری پہ آئے لیکن نفری کی کمی کی وجہ سے مستقل ڈیوٹی نہ لگائی جاسکی۔ اس سلسلے میں سی ای او ٹریفک سرکل کہوٹہ کو آگاہ کیاگیا اور مستقل پوائنٹ کی منظوری پائپ لائن میں ہے۔
پی ٹی آئی کے پہلے اور واحد دور حکومت میں نارہ میں سوئی گیس پائپ لائن ڈالنے کا کام شروع ہوا جو تاحال نامکمل ہے۔ بارہا سیاسی نمائندوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی لیکن کام شروع نہ ہوسکا۔گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی عمارت تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے ناکافی ہے، بنیادی مرکز صحت کی تقریباً بائیس کنال اراضی اس کام کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے لیکن مقامی قائدین کا اس پہ اتفاق نہ ہوسکا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے نئی عمارت کا پروپوزل منظور ہوچکا ہے گورنمنٹ بوائز ہائیر سکینڈری سکول میں اساتذہ کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ پرنسپل سکول سے اس بارے معلومات حاصل نہ ہوسکی۔
البتہ ذرائع سے پتا چلا ہے کہ حال ہی میں تین اساتذہ سکول سے چلے گئے ہیں جن میں ایک ریٹائرمنٹ، ایک پروموشن اور ایک لیکچرر ٹرانسفر کروا کرکے چلے گئے ہیں جس سے کم از کم تین مضامین پڑھانے کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
مرکز صحت کی بات کی جائے تو بنیادی مرکز صحت نارہ کوالیفائیڈ ڈاکٹر اپنے تمام تر سٹاف کے ساتھ موجود ہے البتہ آبادی اور رقبے کے حساب سے اس ہسپتال کو دیگر سہولیات جس میں لیب ٹیسٹ، ایکسرے، زچہ بچہ سیکشن کے ساتھ 24/7 اشد ضرورت ہے۔ البتہ پنجاب حکومت کے نئے مریم کلینک میں شمولیت سے اس ہسپتال کا بھی مستقبل اچھا نہیں لگ رہا۔ جبکہ اسی روٹ پہ پکھڑال بی ایچ یو اور تھوہا رورل ہیلتھ سینٹر کو پہلے ہی مریم کلینک کا درجہ دیدیا گیا ہے جس سے یو سی سطح پہ ہیلتھ کے مسائل جنم لے سکتے ہیں ستمبر 2023میں نادرہ سروسز کی دس دن ٹیسٹنگ کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے نارہ میں نادرہ دفتر کے قیام کا اعلان کیاگیا تھا جس کو جلد ہی شروع کیاجانا تھا تاہم 20 ماہ بعد میں اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مالی سال 2025میں سینٹر کیلئے فنڈ دستیاب ہوجائیں گے۔ البتہ نارہ سے دفتر کی مٹور شفٹنگ بھی زبان زد عام ہے۔
کچھ سال پہلے سابق سماجی شخصیت عبدالمجید مغل کی جانب سے واٹر سپلائی کیلئے فنڈ دیا گیا تھا اور اہل علاقہ سے بھی فی گھر 500 روپے اور مخیر حضرات نے فنڈ جمع کیا تھا لیکن تاحال اس پہ عملدرآمد نہ ہوسکا جبکہ واٹر سپلائی کا فنڈ بھی منظر عام پہ نہیں آسکا۔
سروے کے دوران شہریوں نے نارہ میں موبائل کمپنیوں کی سروس بارے شکایت کی ہے کہ بجلی بند ہونے کی صورتحال میں مکمل سروس بند ہوجاتی ہے بارہا آگاہ کرنے باجود معاملہ جوں جا توں ہے۔جس سے کاروباری حضرات سمیت طلبا شدید متاثر ہوتے ہیں۔
نارہ چونکہ متعدد یوسیز کا مرکز اور کاروباری علاقہ ہے یہاں سکول کے طلبا، ٹرانسپورٹرز، تاجر حضرات سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا فرد لازمی آتا ہے۔ اس مرکز کا فائدہ جرائم پیشہ عناصر بھی اٹھاتے ہیں، چرس شراب سمیت ہر قسم کا نشہ م باسانی گلی محلوں میں دستیاب ہے بلکہ بااثر مافیا کے زیر سایہ کام چل رہا ہے۔ حال ہی میں سی پی او راولپنڈی کی ہدایت پہ اس ناسور کیخلاف مہم چلی ہے لیکن تھانہ کہوٹہ سمیت نارہ مٹور بھلوٹ کھڈیوٹ وغیرہ سے قابل ذکر منشیات فروش قانون کی پکڑ میں نہ آسکے، طلبا اور نوجوان نسل کا مستقل داؤ پہ لگا ہے جبکہ ہر قسم کا اسلحہ وغیرہ بھی باآسانی پہنچ دستیاب ہے جسکا سدباب کیاجانا اشد ضروری ہے
حکومت و انتظامیہ کی جانب سے صفائی کا نظام تو شروع ہوچکا ہے تاہم گلیوں اور مین روڈ پہ سٹریٹ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ انجمن تاجران نارہ کی عہدیداران نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جلدْ از جلد سٹریٹ لائٹ مہیا کی جائیں۔
راقم نے جن مسائل کا ذکر اوپر کیا ہے چونکہ ان میں زیادہ کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے لہذا نتیجتا یہ بات عیاں ہے کہ نارہ سے گزشتہ دو تین الیکشن پی ٹی آئی جیتتی رہی ہے، موجودہ ایم پی اے راجہ صغیر اور ایم این اے پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے لگتا ہے کہ اپنی ہارے ہوئے پولنگ اسٹیشن پہ کام کروانا شاید انکی لسٹ میں شامل نہیں۔ ایم پی اے راجہ صغیر پی ٹی آئی میں بھی شامل رہے جو وقت ملا اس میں جو کام ہوسکتے تھے
ایم این اے صداقت عباسی کیساتھ مل کر کئے لیکن ن لیگ میں شمولیت و ایم پی اے کی سیٹ پہ بیٹھنے کے بعد اہل علاقہ ترقیاتی کاموں کے مکمل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت ان مسائل کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور جہاں سیاسی نمائندے کام کرسکتے ہیں ان سے کام کروائیں سکول، ہسپتال، گیس اور نادرہ دفتر جیسے اہم کام کم از کم اسی مالی سال میں ہونے چاہیے۔ سٹنگ نمائندہ ہر شخص کا نمائندہ ہوتا ہے نا کہ صرف اپنے ووٹر کا!