پروفیسر محمد حسین/رسول پاک نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ناپسندیدہ ہو تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہو گی جنھوں نے اس کے نکالے ہوئے طریقہ پر عمل کیا بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جوانسان یعنی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خون ناحق کا ایک حصہ آدم ؑ کے اس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا کیوں کہ قتل انسانیت کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی غلط خیال یا غلط رویہ کی بنیاد ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہو گا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں ان سب کے گناہ کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب دہ ہے اس کی نیکی یا بدی اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے مثلا ایک زانی کو لیجئے جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے جن کی صحبت کے اثر سے ،جن کی بر ی مثالیں دیکھنے سے اور جن کی ترغیبات سے اس شخص کے اندر زناکاری کی صفت نے ظہور کیاوہ سب اس کے زنا کار بننے میں حصہ دار ہیں اور خو د ان لوگوں نے جہاں جہاں سے اس بد نظری و بد نیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں تک اس کی ذمہ داری پہنچتی ہے حتی کہ یہ سلسلہ اس اولین انسان پر منتہی ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے قوت انسانی کو خواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا یہ اس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے ہم عصروں اور اس کے اسلاف سے تعلق رکھتا ہے پھر وہ خود اپنی زناکاری کا ذمہ دار ہے اس کو بھلے اور برے کی جو تمیز دی گئی تھی اس کو صنفی بد عملی کے برے نتائج سے جو واقفیت تھی اس کو نیک لوگوں سے خیر و شر کا جو علم پہنچا تھا ان میں کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اٹھایا اور اپنے آپ کو نفس کی اس اندھی خواہش کے حوالے کر دیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی پھر یہ شخص اس بدی کو دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے اور اسے اپنی نسل میں اور اللہ جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی زندگیوں کو خراب کر دیتا ہے ار اس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے کسی دوشیزہ لڑکی کو پھسلا کر بد اخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہے اور اس کے اندر وہ بری صفات ابھار دیتا ہے جو اس سے منعکس ہو کر نہ معلوم کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہےں اور کتنے گھر بگاڑ دیتی ہیں جس کے اثرات بعد کی نسلوں میں مدتہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں یہ سارا فساد انصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھا جائے اور اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے اس پر نیکی کو بھی قیاس کر لینا چاہیے جو نیک ورثہ اپنے اسلاف سے ہم کو ملا ہے اس کا اجر ان سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو ابتدائے آخر نیش سے ہمارے زمانہ تک اس کے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے پھر اس ورثہ میں کو لے اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اجر ہمیں بھی ملنا چاہیے پھر اپنی سعی خیر کے جو نقوش و اثرات ہم دنیا میں چھوڑ جائیں گے انھیں بھی ہماری بھلائیوں کے حساب میں اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیے جب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ نوع انسانی میں چلتا رہے اور ان کے فوائد سے خلق خدا متمع ہوتی رہے جزا کی یہ صورت ہر صاحب عقل انسان تسلیم کرے گا کہ صحیح اور مکمل انصاف اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے اس سے ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں جنھوں نے جزا کے لیے اسی دنیا کی موجودہ زندگی کو کافی سمجھ لیاہے ایک انسان آج اپنی پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں جو اچھے یا برے کام کرتا ہے ان کی ذمہ داری میں نہ معلوم کتنی نسلیں شریک ہیں جو گزر چکیں اور آج یہ ممکن نہیں کہ انھیں ا س کی جزا یا سزا پہنچ سکے پھر اس شخص کے یہ اچھے یا برے اعمال جو وہ آج کر رہا ہے اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جائیںگے بلکہ ان کے اثرات کا سلسلہ آئندہ صدہا برس تک چلتا رہے گا ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوںتک پھیلے گا اور اس کے حساب کا کھاتہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک یہ اثرات چل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں کس طرح ممکن ہے کہ آج ہی اس دنیا کی زندگی میں اس شخص کو اس کے کسب کی پوری جزا مل جائے حالانہ اس کے کسب کے اثرات لاکھواں حصہ بھی رونما نہیں ہوا ہے پھر اس دنیا کی محدود زندگی اور اس کے محدود امکانات سرے سے اتنی گنجائش ہی نہیں رکھتے کہ یہاں کسی کو اس کے کسب کا پورا بدلہ مل سکے آپ کسی ایسے شخص کا جرم کا تصور کیجئے جو دنیا میں ایک جنگ عظیم کی آگ بھڑکاتا ہے اور اس کی اس حرکت کے بے شمار برے نتائج ہزاروں برس تک اربوں انسانوں تک پھیلتے ہیں کیا کوئی بڑی سے بڑی سے جسمانی اخلاقی روحانی یا مادی سزا بھی جو اس دنیا میں دی جانی ممکن ہے اس کے اس جرم کی پوری
منصفانہ سزا ہو سکتی ہے اسی طرح کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انعام بھی کسی ایسے کے لیے کافی ہو سکتا ہے جو مدة العمر نوع انسانی کی بھلائی کے لیے کام کر تا رہا ہو اور ہزاروں سال تک بے شمار انسان جس کی سعی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے چلے جا رہے ہوں عمل اور جزا کے اس مسئلے کو اس پہلو سے جوشخص دیکھے گا اسے یقین ہو جائے گا کہ جزا کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے جہاں تمام اگلی اور پبھلی نسلیں جمع ہوں تمام انسانوں کے کھاتے بند ہو چکے ہوں حساب کرنے کے لیے ایک علیم و خیر خدا انصاف کی کرکبھی پر متمکن ہو اور اعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے انسان کے پاس غیر محدود زندگی او ر اس کے گردو پیش
جزا و سزا کے غیر محدود امکانات موجو د ہوں۔
122